|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پانچ نومبر کا صدارتی انتخاب لڑنے اور اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہیں۔
صدر بائیڈن نے ٹیلی وژن چینل 'اے بی سی نیوز' کے اینکر جارج سٹیفناپولس کے ساتھ اپنے 22 منٹ کے انٹرویو میں کہا کہ "میں سب سے زیادہ اہل شخص ہوں اور جانتا ہوں کہ کام کیسے کرنا ہے۔"
صدر بائیڈن گزشتہ پچاس برسوں سے سیاست میں ہیں اور اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے نومبر میں ہونے والا صدارتی مقابلہ جیتنے کے لیے انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔
لیکن دوسری جانب واشنگٹن میں کچھ ڈیموکریٹک قانون ساز پرائیویٹ طور پر، اور عوامی حلقے بڑے پیمانے پر ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ 81 سالہ صدر بائیڈن کے پاس ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی صلاحیت اور جسمانی قوت موجود نہیں اور انہیں صدارتی انتخاب کی دوڑ سے نکل جانا چاہیے۔
اس حوالے سے بائیڈن نے انٹرویو میں کہا "اگر خدا زمین پر آ کر کہے کہ اس دوڑ سے نکل جاؤ تو میں اس سے نکل جاؤں گا، لیکن خدا نیچے نہیں آ رہا۔"
ایک ہفتہ قبل صدر بائیڈن اپنے صدارتی حریف ٹرمپ کے ساتھ پہلے صدارتی مباحثے کے دوران جھجھکتے ہوئے دکھائی دیے اور کئی موقعوں پر وہ اپنے خیالات کی ترتیب کھو بیٹھے تھے۔ اس مباحثے میں صدر بائیڈن ٹرمپ پر مسلسل وار کرنے یا اپنے عہدے کے ساڑھے تین سال کے عرصے کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے تھے۔
SEE ALSO: میں انتخابی دوڑ میں موجود رہوں گا اور جیتوں گا: بائیڈنبائیڈن نے صدارتی مباحثے کی رات کا ذکر کرتے ہوئے انٹرویو میں کہا کہ وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی طبعیت بھی بہت خراب تھی۔
اپنی خراب کارکردگی کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ "اس میں کسی کی غلطی نہیں تھی۔ میرا وقت خراب تھا۔"
لیکن جمعے کو انٹرویو کے دوران وہ چوکس دکھائی دیے اور انہوں نے اسٹیفناپولس کے سوالات کا جواب دینے کے دوران زیادہ ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی۔ وہ ٹرمپ پر وار کرنے کے لیے بھی بے تاب نظر آئے۔
انہوں نے کہا،"ٹرمپ کو جھوٹ بولنے کا مرض ہے۔ وہ پیدائشی جھوٹے ہیں۔"
بائیڈن نے ان خبروں کا حوالہ دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ نے 90 منٹ کے مباحثے کے دوران 28 مرتبہ غلط بیانی کی۔
صدر بائیڈن سے انٹرویو کرنے والے سٹیفناپولس کا شمار امریکہ کے معروف صحافیوں میں کیا جاتا ہے۔ جن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے 'اے بی سی' کے ساتھ انٹرویو سے انکار کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بائیڈن کے اعصاب سے متعلق سوال
انٹرویو کے دوران جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے کبھی اپنا اعصابی ٹیسٹ کروایا ہے؟ جس پر بائیڈن نے جواب دیا کہ وہ عالمی اور قومی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر روز ایک مکمل اعصابی ٹیسٹ سے گزرتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا کبھی ان کا سمجھ بوجھ کا ٹیسٹ ہوا ہے؟ بائیڈن کا کہنا تھا کہ کسی نے نہیں کہا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔
تاہم پہلے صدارتی مباحثے میں بائیڈن کی ناقص کارکردگی کے سلسلے میں رائے عامہ کے متعدد جائزوں میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ ری پبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ اس مقابلے میں ان سے آگے رہے۔
سال 2020 کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن کی جیت اور 1956 کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے وہی امیدوار پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی مقابلے میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔
SEE ALSO: میں الیکشن لڑوں گا، مجھے انتخابی دوڑ سے نکالا نہیں جا سکتا: بائیڈنبائیڈن نے رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق سٹیفناپولس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ رائے عامہ کے جائزوں کا بندوبست کرنے والے ان تمام کا، جن سے میری بات ہوئی، کہنا ہے کہ یہ مقابلہ برابر رہا۔
بائیڈن نے وسکانسن کے علاقے میڈیسن میں ایک ریلی کے دوران اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ "میں انتخابی دوڑ میں شامل ہوں اور میں دوبارہ جیتنے جا رہا ہوں۔"
انہوں نے پرجوش حامیوں سے باآواز بلند کہا کہ میں نے ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ میں اسے دوبارہ ہراؤں گا۔
امریکہ کے تین بڑے اخبارات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل نے حالیہ دنوں میں اپنی اشاعتوں میں لکھا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران بائیڈن کی یاداشت کی خرابی اور بھولنے کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ جب کہ کچھ مغربی عہدے دار یہ کہہ رہے ہیں کہ اٹلی میں ہونے والے جی سیون کے حالیہ سربراہی اجلاس میں بھی اس حوالے سے بائیڈن میں تنزلی محسوس کی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اے بی سی نیوز کے اینکر سٹیفنا پولس کے سوالوں کے جواب دینے میں بائیڈن کے انداز اور چوکسی کا نہ صرف ٹرمپ اور ان کے مشیروں نے تجزیہ کیا ہو گا بلکہ ڈیموکریٹس نے بھی یہ تعین کیا ہو گا کہ ان کا امیدوار، ٹرمپ سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن کے حریف اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی 78 برس ہے اور وہ بھی بعض اوقات بولنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔
زیادہ تر ڈیموکریٹس بائیڈن اور ان کی انتخابی ساتھی نائب صدر کاملا ہیرس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن کا انتخابی دوڑ سے باہر ہونا پارٹی کے لیے بہتر ہو گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی اگست میں اپنا قومی کنونشن منعقد کر رہی ہے جس میں صدارتی امیدوار کو نامزد کیا جائے گا۔ لیکن اب صدارتی امیدوار کے متعلق طے کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں سے کم از کم تین ڈیموکریٹس نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نامزدگی سے دستبردار ہو جائیں۔ ان میں میساچوسٹس کے سٹھ مولٹن، ٹیکساس کے لائیڈ ڈاگٹ اور ایریزونا کے راول گریاوا شامل ہیں۔