رسائی کے لنکس

زمبابوے میں دادیوں کا تھیراپی کا نیٹ ورک ، امریکہ میں بھی مقبول ہو رہا ہے


زمبابوے میں بڑی عمر کی خواتین کی تھیراپی مقبول ہونے لگی
زمبابوے میں بڑی عمر کی خواتین کی تھیراپی مقبول ہونے لگی

  • زمبابوے میں بڑی عمر کی خواتین کی تھیراپی مقبول ہونے لگی
  • الگ تھلگ کسی پارک وغیرہ کے بینچ میں بیٹھ کر دادی کی عمر کی خاتون کو ذہنی مسائل بتائے جاتے ہیں۔
  • یہ خواتین ذہنی صحت سے متعلق مسائل کے حل کی بنیادی ٹریننگ لیتی ہیں۔
  • مقامی روایات میں دادیاں، نانیاں مقامی ثقافت اور دانائی کی محافظ ہوتی ہیں، پروگرام کے بانی کا بیان
  • پروگرام امریکہ میں بھی مقبول ہونے لگا، اسی طرز کا پروگرام واشنگٹن ڈی سی میں بھی لانچ

جب گزشتہ سال خاندان کا اکلوتا بیٹا اور واحد کمانے والا گرفتار ہوا، تو زمبابوے کی رہائیشی ٹیم بوڈ زئی ٹیمبو شدید ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گئیں۔ زمبابوے جہاں ذہنی صحت کے مراکز بہت نایاب ہیں انہیں اس سلسلے میں پروفیشنل مدد ملنے کی امید بہت ہی کم تھی۔ انہوں نے خودکشی کے بارے میں بھی سوچا۔

بقول ان کے، ’’میں اب جینا نہیں چاہتی تھی، جو لوگ مجھے دیکھتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ میں ٹھیک ہوں، لیکن اندر سے میں بہت بری حالت میں تھی۔ اور میں بالکل تنہا تھی۔‘‘

لیکن ایک لکڑی کے بینچ اور شفیق دادی نے انہیں اس مصیبت سے نکالا۔

زمبابوے میں عمر رسیدہ افراد، مقامی سطح پر ذہنی صحت کی تھیراپی میں مرکزی کردار رکھتے ہیں۔

اس طریقہ کار میں کمیونٹی کلینکس، چرچوں، معاشی طور پر تنگ محلوں اور یونی ورسٹیوں کے ویران کونوں میں بینچ رکھے جاتے ہیں۔ یہاں عمر رسیدہ خواتین، جنہیں مسائل کے حل دینے والی تھیراپی کی بنیادی ٹریننگ دی جاتی ہے، لوگوں سے تنہائی میں گفتگو کرتی ہیں۔

یہ تھیراپی زمبابوے میں مقامی روایات سے متاثر ہوکر ڈیزائین کی گئی ہے جہاں گھروں میں دادیوں سے مشکل حالات میں مشورے لیے جاتے ہیں۔ یہ روایت شہروں کے پھیلنے سے ختم ہوتی جا رہی ہے، جہاں قریب رہنے والے خاندانوں میں رخنہ پڑ چکا ہے۔ لیکن اب یہی طریقہ کار ذہنی صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے دوبارہ استعمال میں آ رہا ہے۔

اس طریقہ کار کو شروع کرنے والے سائکائیٹری کے پروفیسر ڈکسن چیبانڈا کا کہنا ہے کہ دادیاں مقامی ثقافت اور دانائی کی محافظ ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار ویتنام، بوٹسوانا، ملاوی، کینیا اور تنزانیہ میں جڑ پکڑ رہا ہے اور لندن میں بھی اس پر ابتدائی طور پر کام ہو رہا ہے۔

نیویارک میں بھی شہر کی جانب سے جو نیا ذہنی صحت کا پلان لانچ کیا گیا ہے، اس میں اس طریقہ کار سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ اسے فرینڈشپ بینچ کا نام دیا گیا ہے، اور اس میں سماجی تنہائی کے مسئلے پرتوجہ دی گئی ہے۔ یہ نارنجی رنگ کے بینچ اب ہارلیم، بروکلین اور برونکس میں لگائے گئے ہیں۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بھی ایک ادارہ ہیلپ ایج یو ایس اے ایک ایسا ہی منصوبہ لا رہا ہے، جس کا نام ڈی سی گرینڈ پیرنٹس فار مینٹل ہیلتھ انی شی ایٹو رکھا گیا ہے۔ یہ 2022 میں شروع ہوا اور فرینڈشپ بینچ زمبابوے کی ٹیم کی جانب سے اب تک بیس دادیوں کو ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ ذہنی صحت سے متعلق بات کرنے کے بارے میں تعصبات کو روکیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق ملک میں ہر پانچ میں سے ایک فرد ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا شکار ہے۔

چیبادا کا کہنا ہے کہ یہ خیال انہیں اس وقت آیا، جب 2005 میں ایک خاتون مریض سے وہ اس لیے ملاقات نہ کر پائے کیونکہ ہسپتال تک آنے کا کرایہ ان کے پاس نہ تھا۔ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ اس خاتون نے خودکشی کر لی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں خیال آیا کہ انہیں مقامی کمیونٹی میں اپنی موجودگی بڑھانی ہوگی۔

بقول ان کے انہیں خیال آیا کہ ایسے میں سب سے اہم سرمایہ یہ دادیاں ہیں جو مقامی ثقافت کی محافظ ہیں۔

انہوں نے ابتدا میں دادی کی عمر کی 14خواتین کو اس کام کے لیے ملازمت دی، اور انہیں ٹریننگ دی۔

اس نیٹ ورک میں جو اب ملک کی ہیلتھ منسٹری اور ورلڈ بینک کے ساتھ بھی شراکت کرتا ہے، اب 2000 سے زائد دادیوں کی عمر کی خواتین کام کرتی ہیں اور صرف 2023 میں دو لاکھ سے زائد زمبابوے کے شہری، کسی الگ تھلگ بینچ میں بیٹھ کر دادی کی عمر کی کسی خاتون سے تھیراپی لے چکے ہیں۔

اچھے دوست، اچھی صحت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:10 0:00

سری دزائی زوکا، وہ دادی جنہوں نے ٹیم بوڈ زئی ٹیمبو کو خودکشی کا ارادہ ترک کرنے پر قائل کیا تھا، حال ہی میں ان کے گھر دوبارہ کچھ سوالوں کے ساتھ گئیں تاکہ ٹیم بوڈ زئی ٹیمبو کی بہتری کے بارے میں جان سکیں۔ ٹیم بوڈ زئی ٹیمبو کا کہنا تھا کہ انہیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے اور وہ اب سبزیاں بیچ کر گزارا کر رہی ہیں۔

سری دزائی زوکا اس علاقے میں اب معروف ہوچکی ہیں۔ لوگ رک کر انہیں سلام کرتے ہیں۔ کچھ ان سے ملاقات کا پوچھتے ہیں، تو کچھ ان سے نمبر مانگتے ہیں۔

ان کے بقول، ’’لوگ اب سڑکوں پر کھلے عام ہمیں روک کر، بات کرنے سے نہ شرماتے ہیں، نہ ہی گھبراتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل اب ایسی چیز نہیں رہ گئے، کہ ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم محسوس کی جائے۔‘‘

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG