امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس جنگ کو امریکہ کے اگلے صدر تک منتقل ہونے نہیں دیں گے۔
صدر جو بائیڈن نے یہ بات قوم سے خطاب کے دوران ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی وہاں صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی اور دارالحکومت کابل سمیت ملک پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایسٹ روم سے پیر کو خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکی فوجیوں کو ایسی جنگ نہیں لڑنی چاہیے اور وہاں اپنی جان قربان نہیں کرنی چاہیے جہاں افغان فوجیں اپنے لیے لڑنے کی خواہش ہی نہیں رکھتیں۔
گزشتہ چھ روز کے دوران صدر بائیڈن پہلی مرتبہ کیمرے کے سامنے آئے ہیں۔ وہ میری لینڈ میں واقع صدارتی تفریحی رہائش گاہ کیمپ ڈیوڈ سے موسمِ گرما کی تعطیلات میں وقفہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس پہنچے تھے اور خطاب کے فوراً بعد صحافیوں کے سوال لیے بغیر واپس کیمپ ڈیوڈ روانہ ہو گئے۔
اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ کا مشن کبھی بھی ’نیشن بلڈنگ‘ یعنی قوم کی تعمیر اور مرکزیت پسند جمہوریت نہیں سمجھا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان میں واحد اہم قومی مقصد آج بھی وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے کہ مادرِ وطن پر دہشت گرد حملوں کو روکا جا سکے۔
صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ چین اور روس جیسے ملک امریکہ کو افغانستان میں مصروف دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ہمارے حقیقی اسٹرٹیجک مدِ مقابل ممالک چین اور روس تو چاہیں گے کہ امریکہ افغانستان کے اندر لا محدود مدت کے لیے اربوں ڈالر بہاتا رہے۔
اپنی تقریر میں صدر بائیڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے جولائی میں فون پر رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کے انخلا کے بعد کیا وہ ملک میں خانہ جنگی یا سیاسی اتحاد قائم کرنے کے لیے تیار ہیں؟
صدر بائیڈن کے بقول انہوں نے اشرف غنی کو تجویز دی تھی کہ وہ سفارتی طور پر لوگوں سے بات کریں اور طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ کریں لیکن صدر غنی نے ان تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغان فورسز لڑیں گی۔ لیکن اشرف غنی غلط تھے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی طالبان کے کابل آنے پر 15 اگست کو ہی بنا مزاحمت ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
صدر کی تقریر پر امریکہ سے ردِعمل
جو بائیڈن کی اس تقریر کے بعد کانگریس میں دونوں جماعتوں کے اراکین کی جانب سے تنقید سامنے آ رہی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کو اس تنقید کا سامنا ہے کہ اس نے افغانستان سے انخلا کے عمل میں بعض غلطیاں کیں اور وہ طالبان کی کابل میں پیش قدمی اور افغان فورسز کے بنا مزاحمت ہتھیار ڈالنے سے بے خبر تھی۔
یہ وہ تنقید ہے جس پر صدر بائیڈن نے خود بھی اپنی تقریر میں اعتراف کیا اور ایک ٹوئٹ میں بھی کہا کہ انہیں علم ہے کہ افغانستان سے متعلق ان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن وہ افغان جنگ کی ذمہ داری ملک کے اگلے صدر پر ڈالنے کے بجائے یہ تنقید برداشت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے متعلق فیصلہ امریکی عوام اور ملک کے حق میں بہتر ہے۔
’بائیڈن انتظامیہ نے پچھلی انتظامیہ کی طرح سنگین نتائج پر مکمل توجہ نہیں دی‘
سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن سینیٹر رچرڈ بر کا کہنا تھا کہ وہ صدر بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے بقول، "بائیڈن انتظامیہ نے پچھلی انتظامیہ کی طرح سنگین نتائج پر پوری توجہ نہیں دی۔ مجھے توقع تھی کہ صدر بائیڈن اپنا منصوبہ کانگریس اور قوم کے سامنے رکھیں گے اور وہ بحیثیت کمانڈر ان چیف اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔"
سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین و ڈیموکریٹک رہنما مارک وارنر نے کہا ہے کہ وہ جیورسڈکشن کی دیگر کمیٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
ان کے بقول وہ یہ ضروری سوالات اٹھانا چاہیں گے کہ افغانستان کی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی اس قدر جلد نا کامی جیسے بدترین حالات کے لیے صدر بائیڈن بہتر طور پر تیار کیوں نہیں تھے۔
کابل میں پیش آنے والے واقعات تباہی تھے: ڈیموکریٹ رکن سیتھ ماولٹن
آرمڈ سروسز کمیٹی اور ہاؤس کے ڈیموکریٹ رکن سیتھ ماولٹن نے کابل کے اندر اتوار کو پیش آنے والے واقعات کو تباہی قرار دیا ہے۔
ان کے بقول اس پر بحث کرنے کا وقت گزر گیا کہ آیا ہمیں افغانستان میں قیام کرنا چاہیے تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اس پر بحث کرنے کا وقت ہے کہ ہم نے افغانستان سے نکلنے کے عمل کا کیسا بندوبست کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب ایوان نمائندگان میں خارجہ امور کی کمیٹی کی اوورسائٹ انویسٹی گیشن سب کمیٹی کے رکن ٹیڈ لیو جو نے اس بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ افغان فوج اور پولیس فورسز چند دنوں کے اندر ہی ناکام کیوں ہو گئی، باوجود اس کے کہ ان پر ہمارے ٹیکس دہندگان کے 80 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کی انتظامیہ نے یہ پیسہ افغان فوج اور افغان پولیس قائم کرنے پر خرچ کیا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید
صدر بائیڈن کے خطاب سے قبل ان کے پیش رو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو بیانات جاری کیے تھے جس میں انہوں نے دلیل دی تھی کہ اگر وہ صدر ہوتے تو جو کچھ ہوا ہے ایسا نہ ہوتا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کیا تھا جس میں افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا نظام الاوقات دیا تھا اور جواب میں عسکریت پسندوں کو امریکیوں پر حملے نہ کرنے اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا پابند بنایا تھا۔
’ایک رہنما کا ایسا رویہ نہیں ہوتا‘
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن ٹیڈ کروز نے صدر بائیڈن کی تقریر پر جاری ردِعمل میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن کی تقریر مایوس کن تھی۔
ان کے بقول بائیڈن نے اس حقیقی بحران کے لمحے کو جماعتی بحث میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ٹیڈ کروز نے کہا کہ صدر بائیڈن نے ان افغان فورسز کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے جو امریکی فوجیوں کے ساتھ دہائیوں تک مل کر لڑتے رہے اور اپنی جان دیتے رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر بائیڈن سابق صدر ٹرمپ کو الزام دیتے ہیں جن کے افغانستان سے انخلا کے پروگرام کو بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ نے ترک کیا۔ وہ افغان فوج کو الزام دیتے ہیں جس پر انہوں نے خود اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن سوائے اپنے، ہر ایک کو الزام دیتے ہیں۔ ایک رہنما کا ایسا رویہ نہیں ہوتا۔
ایوان نمائندگان کی رکن باربرا لی نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے آج درست بات کی ہے کہ وہ 20 برسوں سے بہت واضح سوچ رکھتے تھے کہ افغانستان میں امریکی فوج کا استعمال کبھی بھی حل تھا نہ ہو گا۔
انہوں نے افغانستان کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک اندوہناک المیہ قرار دیا۔
رکن کانگریس باربرا لی نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم امریکہ کے اتحادیوں بشمول افغان اتحادیوں کو محفوظ انداز میں وہاں سے نکال لائیں اور اس وقت یہ کام ہماری ترجیح ہونا چاہیے۔
’صدر نے امریکہ کی ساکھ اور ہماری اہلیت کو دور رس نقصان پہنچایا‘
صدر بائیڈن کی تقریر پر ہاؤس میں ری پبلکن رہنما کیون میکارتھی نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ چھ دن کی خاموشی کے بعد صدر بائیڈن نے کئی عشروں کے عرصے کی خارجہ پالیسی کا بدترین بحران سامنے رکھا ہے۔
ان کے بقول صدر کے خطاب میں تباہ کن فوجی انخلا سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔ ایسا انخلا جو ان کے بقول، امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام رہا بلکہ ہزاروں فوجیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔
کیون میکارتھی نے کہا کہ صدر بائیڈن کے غلط فیصلے نے چند ہفتوں کے اندر ہی افغانستان میں نہ صرف بدترین نتائج دیے ہیں بلکہ امریکہ کی ساکھ اور ہماری اہلیت کو دور رس نقصان پہنچایا ہے۔