امریکی صدر جو بائیڈن نےجمعے کو جاپان کے وزیر اعظم فیومو کشیدا کا وائٹ ہاوس میں خیرمقدم کیا ۔ کیشیدا امریکہ کے ایک ایسےدورے پر ہیں جو امریکہ اور جاپان کے درمیان مضبوط تر اسٹریٹیجک تعلقات اور علاقائی سلامتی کے خطرات کے دوران ، خاص طور پر چین کی جانب سے اور یوکرین پر روس کے حملے کے دوران ٹوکیو کی بڑھتی ہوئی تشویش کو اجاگر کرتا ہے ۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی کے ساتھ پوری طرح سے اور مکمل طور پر وابستہ ہے اور خاص طور پر جاپان کے دفاع سے۔
بائیڈن فیومو سر براہی اجلاس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے اپنے جاپانی ہم منصبوں، وزیر خارجہ ہیاشی یوشیماسا اور وزیر دفاع ہمادا یوسوکازو نے دفاع کے انداز، فوجی تربیت کےانتظامات اور کمانڈ کے تعلقات پر متعدد تبدیلیوں کے ایک سلسلے کا اعلان کیا جن میں اوکی ناوا میں قائم امریکی میرین کور یونٹس کو از سر نو منظم کرنے کے منصوبے شامل تھے ۔
بدھ کے روز واشنگٹن میں اعلان کی گئی یہ تبدیلیاں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ دونوں اتحادی تائیوان پر کسی چینی حملے یا شمالی کوریا کے جوہری حملوں کی صورت میں انڈو پیسیفک علاقے میں کسی جنگ کے امکان کو مزید سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔
جاپان نے دسمبر میں جاری کی گئی قومی سلامتی کی اپنی نئی حکمت عملی کو نافذ کر دیا ہے جو اس امکان کے بارے میں خبردار کرتی ہے کہ مستقبل میں انڈو پیسیفک علاقے ، خاص طور پر مشرقی ایشیا میں کوئی سنگین صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور اس نے طویل فاصلے پر جوابی حملے کی صلاحیت پر زور دیا ہے جو اسے مرکزی چین میں اہداف تک پہنچنے کے قابل بنائے گی ۔
کیشیدا کی حکومت کا جاپان کے دفاعی بجٹ کو 2027 تک دوگنا کرنے کا بھی ارادہ ہے جس سے یہ ملک فوجی اخراجات کے حوالےسے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر آجائے گا۔
بدھ کے روز امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جاپان کو 2027 تک اپنے دفاع کے اخراجات میں اضافےکو دوگناکرنے کے حالیہ اقدام پر سراہا ۔
انہوں نے کہا کہ جاپان کی نئی اسٹریٹیجیز ، اپنے چیلنجز کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے ان کے منصوبے امریکی اسٹریٹیجیز سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہیں ۔
تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں جو ٹوکیو تک پھیل سکتا ہے ، ٹوکیو اپنی حفاظت اور جاپان میں اس وقت کام کرنے والے لگ بھگ 50 ہزار امریکی فوجیوں کی مدد کے لیے اپنی صلاحیت میں اضافے کی کوشش کررہاہے ۔ اس سے امریکہ کو امکانی طور پر چین کے ساتھ تنازعے کے شکار تائپے کے دفاع میں مدد ملے گی ۔
امیریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ میں امریکی اسٹریٹیجی پر مرکوز ایک سینئر فیلو زیک کوپر نے و ی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جارحیت کی کسی بھی کوشش کے مقابلے کے لیے ایک مضبوط جاپان چاہیے۔
واشنگٹن میں قائم "سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز" کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں امریکہ کو جاپان میں اپنے اڈوں کو جنگی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
تھنک ٹینک کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’جاپان میں امریکی اڈوں کے استعمال کے بغیر، امریکی لڑاکا اور حملہ آور طیارے مؤثر طریقے سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے‘‘۔
امریکہ اورجاپان کے اسٹریٹجک اتحاد کی گہرائی جاپان کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے اجراء کے بعد ہوئی جس کے تحت وہ اگلے پانچ سالوں میں دفاعی اخراجات کو تقریباً دوگنا کر دے گا۔
جاپان پہلی بار ایسے میزائل تعینات کرے گا جو دوسرے ممالک میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا سکیں.
واشنگٹن کے دورے سے قبل کیشیدا نے مئی میں گروپ سیون کے سر براہی اجلاس میں یوکرین اور ایجنڈے میں شامل دوسرے مسائل سے نمٹنے کے انداز کو مربوط کرنے کے لیے فرانس، اٹلی ، برطانیہ ، اور کینیڈا کا دورہ کیا ۔ جاپان اس سر براہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
عہدےداروں کا کہنا ہے کہ جاپان روس کو یوکرین میں اپنی جنگ سے روکنے پر دباو ڈالنے کے لیے گروپ سیون کی اپنی صدارت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپنی دو سالہ رکنیت کو استعمال کرے گا۔
وی او اے نیوز