بھارت میں فوج کے سکھ اہل کاروں کے لیے ہیلمٹ متعارف کرانے کے فیصلے پر سکھوں کی مذہبی تنظیموں نے اپنے ردعمل میں ایسے کسی اقدام کو اپنی مذہبی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس فیصلے سے متعلق خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد سکھوں کے لیےایک بار پھر ’پگڑی بمقابلہ ہیلمٹ‘ کی 100 سال پرانی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
سکھوں کی مرکزی نمائندہ مذہبی تنظیم اکال تخت اور شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی(ایس جی پی سی) نے اپنے بیان میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوج میں شامل سکھوں کے لیے ہیلمٹ کی خریداری کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق ہیلمٹ کی مجوزہ خریداری کے بعد سکھ اہل کار ’بلٹ پروف‘ پٹکا باندھنے کے بجائے یہ ہیلمٹ پہنیں گے جو بڑے اور ایکسٹرا لارج سائز کے ہوں گے۔
بھارت کی وزارتِ دفاع کی ویب سائٹ پر دستیاب ’ریکویسٹ فور پرپوزل‘ کے مطابق یہ ہیلمٹ سکھ فوجیوں کے سر پر بالوں اور پگڑی کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے سائز میں ہونے چاہئیں۔
واضح رہے کہ سکھ مذہب کے ماننے والے سر پر پگڑی باندھتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ دیگر ممالک کی فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شامل اپنی اس مذہبی علامت اختیار کرنے والے سکھ یونیفارم کے ساتھ بھی سر پر پگڑی ہی باندھتے ہیں۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر ہرجندر سنگھ دھمی نے اس معاملے پر بھارت کے وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ کو ایک خط بھی لکھا ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ بھارتی میڈیا کے توسط سے یہ بات ان کے علم میں آئی ہے کہ سکھ فوجیوں کے لیے ہیلمٹ متعارف کرائے جارہے ہیں۔
ہرجندر سنگھ کا اس خط میں کہنا تھا کہ اگر یہ فیصلہ کیا گیا تو یہ سکھوں کی مذہبی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔انہوں ںے وزیرِ دفاع سے یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیلمٹ کی خریداری کے لیےوزارتِ دفاع کی دی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج میں شامل سکھ روایتی طور پر پہلی عالمی جنگ ہی سے سر پر پٹکا یا پگڑی باندھتے آئے ہیں تاہم بدلتے جنگی ہتھیاروں کی وجہ سے فوجیوں کے تحفظ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
بھارتی فوج کی جانب سے سکھوں کے لیے خصوصی ہیلمٹ کی خریداری کا یہ فیصلہ برطانوی راج کے ختم ہونے کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہوگا۔
’100 سال پرانی بحث‘
ایک اور مذہبی رہنما اور اکال تخت جتھے دار گیانی ہرپریت سنگھ کا اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں برطانوی حکومت نے ایسی ہی ایک کوشش کی تھی لیکن اس وقت بھی سکھوں نے اسے مسترد کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سکھوں کے لیے پگڑی صرف کپڑا نہیں بلکہ یہ وہ تاج ہے جو گرو صاحب نے ان کے سروں پر رکھا تھا۔
بھارتی ’اخبار انڈین ایکسپریس‘ کے لیے صحافی کمل دیپ سنگھ برار نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سو سال بعد ایک بار پھر پگڑی بمقابلہ ہیلمٹ کی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ سکھ تنظیمیں اس فیصلے کو اس لیے تسلیم نہیں کریں گی کیوں کہ ٹوپی یا ہیلمٹ پہننا ان کی مذہبی تعلیمات کے منافی ہے۔
کمل دیپ کے مطابق سکھوں کے لیے یہ نئی بحث نہیں ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں برٹش انڈین آرمی کے سکھ فوجیوں کو ہیلمٹ پہنانے کے لیے مذہبی پیشواؤں کے ذریعے بھی اپیلیں کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود سکھ اہل کاروں نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی برطانیہ نے ہندوستانی فوج میں شامل سکھوں کو ہیلمٹ پہننے پر آمادہ کرنے کے لیے شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کی قیادت کا سہارا لیا تھا لیکن اس بار بھی سکھ فوجی بغیر ہیلمٹ ہی کے میدان میں اترے تھے۔
کمل دیپ سنگھ برار کے مطابق سکھوں کی پگڑی سے گہری وابستگی کی وجہ سے نومبر 1976 میں ملکہ برطانیہ نے ایک بل کی منظوری دی تھی جس کے بعد برطانیہ میں سکھوں کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہننے سے استثناٰ دیا گیا۔
انہوں نے لکھا کہ سکھ اپنی پگڑی کی وجہ سے بہ آسانی قابلِ شناخت ہوتے ہیں۔ 1984 میں دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔
اس کے علاوہ نائن الیون کے بعد پگڑی اور داڑھی کی وجہ سے مسلمان ہونے کے مغالطے کی بنا پر بھی سکھوں کو امریکہ سمیت کئی ممالک میں نسلی منافرت اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سکھ وں کو2004 میں فرانس کے تعلیمی اداروں میں مذہبی علامتوں کے استعمال کی پابندی کا سامنا کرنا جہاں یہ کمیونٹی اس پابندی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے۔
سکھ تنظیموں اور رہنماؤں کی جانب سے بھارتی فوج میں سکھ اہل کاروں کے لیے ہیلمٹ کی خریداری کی مخالف اور مذمت کے جواب میں تاحال حکومتی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ فوج کی جاری کردہ ریکوئسٹ آف پرپوزل میں اہل کاروں کے تحفظ کو اس کی بنیادی وجہ بتایا گیا ہے۔
وزارتِ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق سکھوں کے لیے ہیلمٹ کی خریداری کے بولیاں جمع کرانے کی آخری تاریخ 27 جنوری ہے۔
بھارت کی فوج میں سکھ رجمنٹ اور سکھ لائٹ انفنٹری جیسی مکمل سکھ ریجمنٹس کے علاوہ بھارتی فوج کی پنجاب رجمنٹ اور دیگر انفنٹری یونٹس میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنےو الے اداروں میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔