امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک یاIPEF کے آغاز کا اعلان کیا، جس میں انڈو پیسفک خطے کے درجن بھر ملک شامل ہیں اور اس کا مقصد خطے میں چین کی اقتصادی قوت کا ایک متبادل فراہم کرنا ہے۔
صدر بائیڈن نےIPEF کی لانچ کے موقع پر کہا کہ اکیسویں صدی کی معیشت کا مستقبل زیادہ تر انڈو پیسفک خطے میں لکھا جائے گا۔ ہمارے خطے میں۔" ہم نئے ضوابط لکھ رہے ہیں۔"
اس میں جو ممالک شامل ہورہے ہیں ان میں آسٹریلیا، برونائی، انڈونیشیا، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، ملیشیا، نیوزیلینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔ ٹوکیو میں لانچ کی تقریب میں بائیڈن کے ساتھ جاپان کے وزیر اعظم فیومو کیشیدا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ذاتی طور پر شریک ہوئے جبکہ دوسروں کی شرکت ورچوئل تھی۔
اس IPEF کو اس کے پانچ برس سے زیادہ عرصے بعد، جب امریکہ 'ریجنل کمپری ھنسو ٹریڈ پیکٹ' سے الگ ہوا تھا، انڈو پیسفک ملکوں کو شریک تجارت کرنے کی امریکہ کی کوششوں کے ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: کواڈ اجلاس: کیا امریکہ چین کی سرگرمیوں پر قابو پانا چاہتا ہے؟قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کے روز نامہ نگاروں کو بتایاکہ یہ فریم ورک امریکی خاندانوں اور ورکرز کو ایسے میں اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے مرکز میں لانے کے صدر بائیڈن کےوعدے کا حصہ ہے جس میں ساتھ ہی ساتھ اپنے اتحادیوں اور ساجھے داروں کے ساتھ مشترکہ خوشحالی اور آنے والے عشروں میں ٹیکنالوجی میں جدت لانے کے مقاصد کو حاصل کیا جاسکےگا۔
سلیوان نے کہا کہ یہ گروپ چار فیصدورلڈ GDP کی نمائندگی کرتا ہے اور مستقبل میں مزید ملک بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔
جاپانی وزیر اعظم نے پیر کے روز صدر بائیڈن کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ جاپان لانچ کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس کے سلسلے میں تعاون کرے گا۔
اس IPEF کو چار بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے: جڑی ہوئی معیشت، مستحکم معیشت، صاف معیشت اور منصفانہ معیشت۔تاہم وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مختصر فیکٹ شیٹ کے علاوہ اس منصوبے کے بارے میں بہت کچھ ابھی نامعلوم ہے۔
SEE ALSO: امریکہ بھارت مذاکرات، اسٹریٹجک شراکت داری کا فروغ زیر غورحکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ممالک ان مذاکرات میں زیادہ گہری دلچسپی لیتے جائیں گے، اس کے بارے میں زیادہ حقائق کا انکشاف ہوتا جائے گا۔
تائیوان اس پروگرام کا اس کے باوجود حصہ نہیں ہے کہ وہ اس میں شامل ہونا چاہتا ہے اور اس کی شمولیت کی امریکہ کی دونوں جماعتوں کے باون سینیٹروں کے گروپ نے حمایت بھی کی ہے۔
امریکی عہدیدار کہتے ہیں کہ انڈو پیسفک ریجن جہاں دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی رہتی ہے خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ تیس برسوں میں وہ سب سے زیادہ عالمی پیداوار دینے والا خطہ ہو گا اور وہائٹ ہاؤس کے مطابق دو ہزار بیس میں اس خطے میں امریکہ کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 969ارب ڈالر سے زیادہ کی تھی اور گزشتہ عشرے میں تقریبا دو گنی ہو گئ ہے۔