امریکہ میں قومی سطح کے عوامی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ کہنے سے انکار کیا ہے کہ انتخابی نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے تو وہ انھیں تسلیم کر لیں گے۔
کونی پیاک یونیورسٹی کے تازہ قومی سروے میں 52 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے کہا کہ وہ صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کی حمایت کریں گے جب کہ 37 فیصد نے صدر ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے کی بات کی۔ جون میں یونیورسٹی کے سروے میں جو بائیڈن کو 49 فیصد اور صدر ٹرمپ کو 41 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل تھی۔
وال سٹریٹ جرنل اور این بی سی کے نئے سروے میں جو بائیڈن کے حق میں 51 فیصد اور صدر ٹرمپ کے حق میں 40 فیصد ووٹرز تھے۔ جون میں کیے گئے سروے میں جو بائیڈن کی برتری 42 کے مقابلے میں 49 فیصد تھی۔
صدر ٹرمپ ساڑھے تین سال سے معیشت کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس کی وبا کے بعد معیشت زوال کا شکار ہوئی اور کروڑوں افراد بیروزگار ہو گئے۔ اس کے بعد عوامی آرا بھی ان کے خلاف ہوتی دیکھی جا رہی تھی۔
کونی پیاک یونیورسٹی کے سروے میں 53 فیصد افراد نے صدر ٹرمپ کی معاشی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور 44 فیصد نے اسے اچھا کہا۔ البتہ وال سٹریٹ جرنل کے سروے میں 54 فیصد افراد صدر ٹرمپ کی معاشی کارکردگی سے مطمئن تھے۔
57 فیصد ووٹرز کا کہنا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں گے جو وبا کا پھیلاؤ روکنے پر زیادہ توجہ دیں گے۔ صرف 25 فیصد نے کہا کہ وہ کاروبار کھولنے کی بات کرنے والے رہنما کو ووٹ دیں گے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کا نجی ملاقاتوں میں کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ وبا کا شکار ہوئی ہے اور انھوں نے ذاتی طور پر امریکہ کو عظیم معیشت بنا دیا تھا لیکن کرونا وائرس اسے تباہ کر رہا ہے۔
فاکس نیوز چینل کو ایک حالیہ انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے یہ کہنے سے انکار کیا کہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے کسی بھی نتیجے کو تسلیم کر لیں گے۔ انھوں نے کہا کہ میں دیکھوں گا۔ میں ہاں نہیں کہوں گا۔ میں نہیں بھی نہیں کہوں گا۔ میں نے گزشتہ بار بھی پہلے سے کچھ نہیں کہا تھا۔
جو بائیڈن کی صدارتی مہم نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا فیصلہ امریکی عوام کریں گے۔ اور امریکی حکومت زبردستی گھسے رہنے والوں کو باہر کا راستہ دکھانے کی بہترین اہلیت رکھتی ہے۔
صدر ٹرمپ سے نومبر 2016 کے انتخابات سے ایک ماہ پہلے بھی اسی طرح کا سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کسی بھی انتخابی نتیجے کو قبول کر لیں گے؟ اس پر صدر ٹرمپ نے ہاں یا نہیں میں جواب دینے کی بجائے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں لوگوں کو تجسس میں مبتلا رکھیں گے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن نہیں ہاریں گے کیونکہ یہ سروے جعلی ہوتے ہیں۔ یہ 2016 میں بھی جعلی تھے اور اس بار پہلے سے زیادہ جعلی ہیں۔