امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان پیر کے روز ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کی جنگ میں ممکنہ طور پر موقع محل کی مناسبت سے وقفے اور یرغمالوں کی رہائی کے موضوعات زیر بحث آئے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی حکومتیں جنگ میں عارضی وقفے کے امکان جیسے معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گی اور صدر بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان آنے والے دنوں میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کا بنیادی مقصد بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کی جنگ میں ممکنہ طور پر موقع محل کی مناسبت سے وقفے اور جنگ کے خطے میں پھیلاؤ کو روکنا تھا۔جس کی انہوں نے وضاحت بھی کی۔
جان کر بی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آپ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہم لڑائی میں عارضی اور مقامی سطح کے وقفے کے لیے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم خود کو اس بات چیت کی شروعات میں سمجھتے ہیں نہ کہ اس کے اختتام پر ۔
یہ گفتگو ایک ایسے موقع پر سامنے آئی جب پیر کے روز مزید امریکیوں کا غزہ سے انخلا متوقع تھا اور مزید امداد غزہ کی حدود میں داخل ہونے والی تھی۔
SEE ALSO: بلنکن:غزہ میں انسانی بحران کا خطرہ، ’انسانی ہمدردی کے وقفے‘ کی ضرورت ہے‘کربی نے یہ بھی کہا کہ بائیڈن اور نیتن یاہو نے اپنی بات چیت کے دوران مغربی کنارے کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیالات کیا۔
انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ وہاں مزید امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے لیکن ابھی بہت کم جا رہے ہیں۔ وہاں سے مزید لوگوں کو انخلا کرنا ہے لیکن ابھی بہت کم وہاں سے نکل پا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد لے جانے والے 30 سے بھی کم ٹرک داخل ہو پائے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ جنگ بندی ایک مناسب اقدام نہیں ہو گا، تاہم وہ حملوں میں ایک عارضی وقفے پر زور دے رہا ہے تاکہ مخصوص انسانی ہمدردی کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)