امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور یوکرینی صدر پوروشنکو نے جمعے کے روز مشرقی یوکرین میں روس نوازعلیحدگی پسندوں کے ساتھ جاری تنازع کے حل کا مطالبہ کیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ بائیڈن اور پوروشنکو نے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس دوران اُنھوں نے ’’مشرقی یوکرین کی لڑائی میں آنے والی حالیہ شدت پر اظہارِ تشویش کیا، جہاں مشترکہ روسی علیحدگی پسند افواج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں سنہ 2015 کے بعد کی سطح سے کہیں زیادہ سنگین ہو چکی ہیں، جہاں اکثر بھاری ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں‘‘۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن نے ’’اِس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ نے روس کو پیغام دیا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اِس ضرورت کو واضح کیا کہ صورتِ حال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا جائے‘‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر نے یوکرین پر بھی زور دیا کہ ’’تحمل کا مظاہرہ‘‘ کیا جائے۔
بائیڈن اور پوروشنکو نے ’’سیاسی اور سفارتی حل کی ضرورت پر زور دیا تاکہ تمام فریق منِسک سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے تنازع کا حل تلاش کریں‘‘۔
یوکرینی اہل کاروں نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ روس نواز علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں یوکرینی محاذ پر ’’500 سے زائد توپ کے گولے پھینکے اور 300 سے زیادہ بار بڑے دہانے سے فائر کھولا‘‘، جس کے نتیجے میں کم از کم تین یوکرینی فوجی ہلاک جب کہ چھ زخمی ہوئے۔
پوروشکنو نے جمعرات کے روز متنبہ کیا کہ اگر لڑائی جاری رہتی ہے تو اُن کا ملک مارشل لا لگانے یا فوج کی نئی کارروائی کر سکتا ہے۔
روس نے حالیہ دِنوں یوکرینی فوج اور انٹیلی جنس اہل کاروں پر ضم کیے گئے کرائیمیا کے خطے میں حملوں کی منصوبہ سازی کا الزام لگایا ہے۔
یوکرین کے عہدے داروں نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریملن اِس بات کو بہانہ بنا کر مشرقی یوکرین میں دو برس سے جاری تنازعے کو سنگین کشیدگی میں بدل سکتا ہے۔