امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے پیر کوپہلی رو برو ملاقات کی۔
بائیڈن کے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے تقریباً دو سال بعد ہونے والی یہ ملاقات ایسے ماحول میں ہو ئی ہے جب دونوں سپر پاورز کے درمیان اقتصادی اور بین الاقوامی سیکیورٹی کے معاملات پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور وہ عالمی اثر و رسوخ کے لیے مسابقت کر رہےہیں۔
اس ملاقات کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ چین کے رہنما تائیوان پر جلد ہی کسی حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ واشنگٹن آبنائے تائیوان میں امن برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
بائیڈن نے بالی کے ایک ریزورٹ ہوٹل میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ امریکہ عالمی سطح پر پوری توانائی سے چین سے مسابقت کرے گا، لیکن میں اختلاف کی جانب نہیں دیکھ رہا، میں مقابلے کو ذمہ داری سے نبھانے مقابلے کی بات کر رہا ہوں۔
حالیہ مہینوں میں تائیوان پر تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بیجنگ کے لڑاکا طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود کے قریب سمندر میں میزائل داغے اور امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے اگست میں ہونے والے تائی پے کے دورے پر احتجاج کیا۔
چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شی نے بائیڈن سے کہا ہے کہ وہ اپنے اس وعدے کا احترام کریں کہ امریکہ تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا ہے اور نہ ہی امریکہ کا چین پر کنٹرول کے لیے تائیوان کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔
اس سے قبل انڈونیشیا کے ایک لگژری ریزورٹ ہوٹل میں دونوں رہنماؤں نے مصافحہ کے ساتھ ایک دوسرے کا استقبال کیا، جہاں وہ بڑی معیشتوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
گفتگو کے آغاز میں صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی اور شی کی یہ "ذمہ داری" ہے کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ ان کی اقوام اپنے اختلافات کو سنبھال سکتی ہیں اور باہمی تعاون کے شعبوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔
اس موقع پر چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ دونوں رہنما تعلقات کو بلند سطح پر لے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بائیڈن کے ساتھ کھل کر اور گہرائی سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
خبر رساں ادارے " ایسو سی ایٹڈ پریس " کے مطابق دونوں رہنما اپنے اپنے ملکوں میں اندورنی طور پر مضبوط سیاسی موقف کے ساتھ اس ملاقات میں آئے۔
صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی نے گزشتہ ہفتے ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں امریکی سینیٹ کا کنٹرول حاصل کر لیا اور اب اس کے پاس اگلے ماہ جارجیا میں دوبارہ ہونے والے الیکشن میں اپنی کامیابی کو مزید تقویت دینے کا موقع ہے۔ دوسری طرف چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قومی کانگریس نے صدر شی کو گزشتہ ماہ تیسری ریکارڈ پانچ سالہ مدت کےلیے رہنما منتخب کر لیا۔
ملاقات سے قبل صدر جو بائیڈن نے کہا ہ تھا کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے کنٹرول حاصل کرنے سے ان کی چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت میں مزید تقویت ملے گی۔
بائیڈن امریکہ کی ریاست نیواڈا میں سینیٹر کیتھرین کارٹیز مستو کے دوبارہ انتخاب کے تناظر میں وائس آف امریکہ سے کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پینہ میں دورے کے موقعے پربات چیت کر رہے تھے۔
چینی ہم منصب سے پہلی رو برو ملاقات کے حوالے سے بائیڈن نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ مزید مضبوط ہو رہے ہیں البتہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکہ کے صدر نے کمبوڈیا کے دارالحکومت میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان اور ایسٹ ایشیا سمٹ کے رہنماؤں کے ساتھ سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بائیڈن نے امریکی ٹریولنگ پریس کے سامنے ڈیموکریٹک سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر کو مبارک باد دیتے ہوئے مختصر تبصرہ یوں کیا کہ ان کو دوبارہ اکثریت مل گئی ہے۔
بائیڈن نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے طور پر شی جن پنگ کے حالیہ دوبارہ انتخاب کو تسلیم کیا ہے جس کے مطابق اب وہ تیسری مدت کے لیے چین کے رہنما بن گئے ہیں۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ شی جن پنگ کے ملک کے اندر حالات بدل گئے ہیں۔
امریکہ اور چین کے صدور کی یہ ملاقات، جو بائیڈن کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد پہلی براہِ راست ملاقات ہے۔
بیجنگ اور واشنگٹن ڈی سی بڑے مسائل پر متفق نہیں ہیں۔ ان مسائل میں تائیوان، بحیرہ جنوبی چین میں نیویگیشن کی آزادی، تجارتی طریقۂ کار اور سیمی کنڈکٹرز پر امریکی برآمدی کنٹرول کے قوانین کے بعد ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش شامل ہیں۔
SEE ALSO: ایک قریبی جنرل کی توسیع اور تین کو ترقی:'صدر شی فوج پر اپنی گرفت بڑھا رہے ہیں'رواں سال اکتوبر میں امریکہ نے سیمی کنڈکٹرز پر امریکی برآمدی کنٹرول کا پروگرام شروع کیا تھا جو کہ چین کی کمپیوٹر چپس کی پیداوار اور خریداری کی صلاحیت کو محدود کر دے گا۔
تاہم بائیڈن نے کہا کہ وہ اور چین کے صدر ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے درمیان بہت کم غلط فہمی ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ "ہمیں ابھی یہ معلوم کرنا ہے کہ سرخ لکیریں کہاں ہیں اور اگلے دو برس میں ہم میں سے ہر ایک کے لیے سب سے اہم چیزیں کیا ہیں۔"