امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کے روز ایک اجلاس کے دوران، جس میں چھ سربراہان مملکت اور تین کثیرالجہتی تنظیموں کے قائدین بھی شریک تھے، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے عالمی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
یہ اجلاس اقوام متحدہ کے تحت آب و ہوا کی تبدیلی پر عالمی کانفرنس سے چھ ہفتے قبل ہوا ہے، جس کا مقصد آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق مستقبل کی عالمی کوششوں کا لائحہ عمل مرتب کرنا ہے۔
اس ورچوئل کانفرنس میں ارجنٹائن، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، میکسیکو اور برطانیہ کے رہنما بھی شریک ہوئے۔ صدر بائیڈن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کے بحران کے بارے مکمل طور اتفاق رائے موجود ہے مگر ایک طرف سب اسے ایک حقیقی خطرہ مانتے ہیں تو دوسری اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے روزگار پیدا کرنے اور میعار زندگی بلند کرنے کے حقیقی اور گراں قدر معاشی مواقع بھی پیش کرتا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر ہونے والے عالمی معاہدے کا مقصد عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرات کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری اضافے تک محدود کرنا ہے۔
دنیا میں ترقی کی رفتار کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ ہوا جس نے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
SEE ALSO: گلوبل وارمنگ پر اقوام متحدہ کی رپورٹ: دنیا سرخ لکیر کے قریب پہنچ گئیعالمی درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ موسم شدید تر ہوتے جا رہے ہیں، جس سے سمندری طوفانوں، شدید بارشوں اور سیلابوں کی تعداد اور ان کی قوت میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے، یہ عوامل نہ صرف جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنتے ہیں بلکہ معیشت کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کی موجودہ سطح کو کم کر کے صنعتی دور سے قبل کے درجہ حرارت سے ڈیڑھ ڈگری زیادہ کی سطح پر لانے سے اس صورت حال پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
2015 میں پیرس کے عالمی معاہدے میں امریکہ کے لیے کاربن گیسوں کے اخراج کو 2030 تک 2005 کے مقابلے میں تقریباً نصف کرنے پر زور دیا گیا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی توانائی روایتی ذرائع کی بجائے سورج اور ہوا جیسے شفاف اور دیرپا ذرائع سے حاصل کرے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ گوٹریس گرین ہاؤس گیسوں کے زیادہ تر اخراج کی ذمہ داری براہ راست ترقی یافتہ دنیا پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر کاربن گیسوں کے کل اخراج کا 80 فی صد دنیا کے 20 امیر ترین ملک پیدا کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اس ورچوئل کانفرنس میں کاربن گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا ملک چین شامل نہیں تھا۔
واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں توانائی اور جیو پولیٹکس کے ایک تجزیہ کار نیکوس تسافوس کا کہنا ہے کہ جب موسمیاتی تبدیلی کی بات چیت ہوتی ہے تو امریکہ اور چین کے تعلقات گفتگو کا موضوع بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چین اپنے توانائی کے ذرائع تبدیل کرتے ہوئے انہیں شفاف توانائی پر منتقل کرے۔
پیرس معاہدے میں 197 ممالک شامل ہیں اور ان کا اگلا عالمی اجلاس نومبر میں گلاسگو اسکاٹ لینڈ میں ہوگا۔