امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین کے دارالحکومت کیف کے اچانک دورے کے بعد پولینڈ پہنچے جہاں انہوں نے وارسا کے تاریخی محل ، رائل کیسل میں یوکرین روس جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے سلسلے میں خطاب کیا۔ صدر نے اپنی تقریر میں اجاگر کیا کہ کیسے انہوں نے یوکرین کے دفاع کے لیے صدر ولودیمیر زیلنسکی کی کوششوں میں مدد کے لیے مغرب اور نیٹو کومتحد کیا۔
صدر بائیڈن نے کہا،’’ایک سال پہلے دنیا کیف پر قبضے کے خلاف کوششوں میں لگ گئی تھی۔ میں ابھی کیف کے دورے سے واپس آیا ہوں اور میں کہہ سکتا ہوں کیف مضبوطی سے قائم ہے۔پروقار انداز میں اور سب سے اہم یہ کہ وہ آزاد ہے۔‘‘
SEE ALSO: امریکہ: یوکرین کے لیے 450 ملین ڈالر کی امداد کا اعلانصدربائیڈن نے کہا،’’یوکرین کے لیے ہماری حمایت کبھی کم نہیں ہوگی۔ یوکرین روس کی فتح کبھی نہیں بنے گا۔‘‘
صدر بائیڈن نے روسی صدر پوٹن پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر انتہائی آسانی سے یہ جنگ ختم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’مغرب روس پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ‘
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کہا، دنیا کی جمہوریتیں روسی جارحیت کے خلاف مضبوط ہو گئی ہیں اور یہ کہ دنیا میں آمریت کمزور ہوئی ہے۔
صدر بائیڈن نے پر جوش ہجوم کے سامنے اپنی تقریر میں روس پر یو کرین کے شہریوں کے خلاف، انسانیت کے خلاف جرائم اور جبرو ستم کا الزام عائد کیا۔
صدر بائیڈن ے کہا،’’ روس نے کسی شرم و ندامت کے بغیر انسانیت کے خلاف بد اخلاقی پر مبنی جرائم کا ارتکاب کیا۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے روس پر الزام لگایا کہ وہ عام شہریوں کو ہدف بنا کر ہلاک کر رہا ہے، آبرو ریزی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، یو کرینی بچوں کو زبردستی ان کے وطن سے دور کر کے انہیں چرا رہاہے اور ٹرین اسٹیشنوں، میٹرنٹی وارڈوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور یتیم خانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔
صدر نے کہا،’’ کوئی بھی اس جبرو ستم سے آنکھیں نہیں ہٹا سکتا جو روس یو کرین کے عوام کے خلاف روا رکھے ہوئے ہے۔ یہ قابلِ نفرت ہے۔‘‘
روس اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
صدر بائیڈن کا ایک سال میں پولینڈ کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ انہوں نے اس موقع پر صدر آندرے دودا سے ملاقات کی۔ انہوں نے نیٹو کے چارٹر کے آرٹیکل 5 کے تحت اجتماعی دفاع کے اصولوں کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے صدر دودا کو یقین دہانی کروائی کہ اگر روس نے جنگ کا دائرہ یوکرین سے باہر بڑھا یا اور پولینڈ پر حملہ کیا تو نیٹو اتحاد اس کا جواب دے گا۔
پولینڈ اپنے ہمسایہ ملک یوکرین کا مسلسل اتحادی رہا ہے۔ اس نے نہ صرف زیلنسکی کی حکومت کے لیے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں اور انسانی ہمدردی کی امداد دی ہے بلکہ یوکرین کے مہاجرین کو پناہ دی ہے اور کیف کے لیے فوجی امداد کے لیے ضروری سہولتیں بھی فراہم کی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں پیر کے روز کہا گیا تھا کہ صدر بائیڈن کی تقریر میں مرکزی نکتہ یہ ہوگا کہ امریکہ یوکرین کے لوگوں اور انسانی حقوق اور وقار کے لیے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے لیے دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
SEE ALSO: جوہری ہتھیاروں کا معاہدہ معطل اور جوہری تجربات شروع کرنے کی روس کی دھمکیصدر بائیڈن نے باور کروایا کہ ان کی انتظامیہ جلد ہی ان کمپنیوں اور افراد پر تعزیروں کے ایک اور سلسلے کا اعلان کرے گی جو گریز کی کوشش کر رہے ہیں یا روس کو جنگ میں مدد دے رہے ہیں۔
وارسا میں کسی امریکی صدر کا خطاب اور وہ بھی کسی جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر، جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پولینڈ وارسا معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے اس کا پابند ہو گیا ہے۔ یہ 1955میں سوویت یو نین اور متعدد مشرقی یورپی ممالک کا ایک فوجی معاہدہ تھا جس کا مقصد مغربی فوجی اتحاد کے مقابلے میں توازن حاصل کرنا تھا۔
(وی او اے نیوز)