صدر ولادیمیر پوٹن نے منگل کے روز یوکرین کے حوالے سے مغرب کو ایک انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق معاہدے کو معطل کر رہا ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے تقریباً ایک سال بعدپوٹن نے کہا ہے کہ روس اپنے مقاصد حاصل کرے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مغرب اسے تباہ کرنے کی کوشش کرر ہاہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے گزشتہ 60 سال کے عرصے میں مغرب کے ساتھ سب سے بڑے تصادم کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے اپنے ملک کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ سے کہا کہ ’’ مغرب کی اشرافیہ نے اپنا مقصد پوشیدہ نہیں رکھا۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ میدان جنگ میں روس کو شکست دینا ناممکن ہے۔‘‘
یہ الزام لگاتے ہوئے کہ امریکہ جنگ کو ایک عالمی تنازع میں بدل رہا ہے، پوٹن نے کہا کہ روس ’’نیو اسٹارٹ‘‘ معاہدے میں اپنی شمولیت معطل کر رہا ہے، جو واشنگٹن کے ساتھ اس کا ہتھیاروں پر کنٹرول کا سب سے بڑا آخری معاہدہ ہے۔
روس اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کی تعداد محدود کرنے سے متعلق یہ معاہدہ 2010 میں ہوا تھا جس پر اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما اور ان کے روسی ہم منصب دمتری میدویدیف نے دستخط کیے تھے۔
یہ معاہدہ جس کی مدت 2026 میں ختم ہو رہی ہے ، دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے جوہری ہتھیاروں کا عملی طور پر معائنہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم یوکرین پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث یہ معائنہ رک گیا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق نیوسٹارٹ معاہدے کو معطل کرنے کے صدر پوٹن کے بیان کے متعلق ایک سوال کے جواب میں اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجیرک نے کہا کہ ’’میں سیکرٹری جنرل کے اس موقف کا اعادہ کروں گا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ اور روسی فیڈریشن کو کسی تاخیر کے بغیر نیو اسٹارٹ ٹریٹی پر مکمل عمل درآمد دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ نیو اسٹارٹ اور دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے دو طرفہ معاہدوں نے نہ صرف روس اور امریکہ ، بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے تحفظ فراہم کیا ہے‘‘۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے بغیر دنیا کہیں زیادہ خطرناک اور غیر مستحکم ہے جس کے ممکنہ نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اس انجام سے بچنے کے لیے بات چیت کی طرف فوری واپسی سمیت ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے پوٹن کے اس اقدام کو ’’انتہائی بدقسمت اور غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کا کہنا ہے کہ اس اقدام نے دنیا کو مزید خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے پوٹن پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کریں۔
روسی رہنما نے کوئی ثبوت دیے بغیر کہا کہ واشنگٹن میں کچھ لوگ جوہری تجربوں پر عائد پابندی کو توڑنے پر غور کر رہے ہیں۔
پوٹن نے کہا کہ اگر امریکہ جوہری تجربہ کرتا ہے تو ہم بھی کریں گے۔ کسی کو خطرناک نوعیت کے اس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ چاہیے کہ عالمی اسٹرٹیجک توازن کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے ایک ہفتہ قبل اسٹرٹیجک سسٹم کو جنگی مقاصد کے لیے نصب کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ اس سے ان کی مراد کون سا نظام تھا۔
پوٹن نے کہا کہ یوکرین نے روس کے اندر ایک ایسی تنصیب پر حملے کی کوشش کی تھی جہاں اس کے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان کا اشارہ ایگلز ایئر بیس کی طرف تھا۔
جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ
دنیا میں موجود تمام جوہری ہتھیاروں کا 90 فی صد حصہ روس اور امریکہ کے پاس ہے۔
نیو سٹارٹ معاہدے کے تحت میزائل لانچروں اور بھاری بمبارطیاروں پر رکھے جانے والے جوہری بموں کی تعداد کو 1550 تک محدود کیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں نے 2018 میں اس کا اطلاق کر دیا تھا۔
پوٹن گزشتہ ایک سال کے دوران کئی بار یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ اگر روس کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ جب کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر مغرب یوکرین کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹتا تو وہ جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے الگ ہو سکتے ہیں۔
پوٹن کا کہناتھا کہ اس تنازع نے روس کو اس اقدام پر مجبور کیا ہے ، خاص طور پر سرد جنگ کے بعد سے نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع نے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے عوام کیف حکومت اور اس کے مغربی حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں جنہوں نے سیاسی، عسکری اور اقتصادی لحاظ سے اس ملک پر مؤثر کنٹرول کر رکھا ہے۔
یوکرین اور مغربی رہنماؤں نے، مثال کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن، جنہوں نے پیر کے روز کیف کا دورہ کیا تھا، اس بیانیے کو زمین پر قبضے کے بے بنیاد بہانے قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پوٹن نے جنگ کا جو جوا کھیلا ہےاس میں اسے لازمی طور پر ہرانا ہو گا۔
روسی افواج کو یوکرین میں تین بڑے محاذوں پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، لیکن اس ملک کے پانچویں حصے پر ابھی تک اس کا قبضہ ہے۔ دونوں جانب سے ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
اپنی ایک گھنٹہ اور 45 منٹ کی تقریر میں پوٹن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ماسکو یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کرے گا اور امریکی قیادت کے نیٹو اتحاد کو ناکام بنائے گا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بارے میں تشویش ہے کہ بیجنگ روس کو ہتھیاروں کی فراہمی پر غور کر رہا ہے، یہ ایک ایسا قدم ہے ، جس سے جنگ ایک جانب روس اور چین اور دوسری طرف یوکرین اور نیٹو کے درمیان تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے ، جنہوں نے منگل کو ماسکو کا دورہ کیا، ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے ۔
اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔