پاکستان کے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد امریکہ کا پہلا باضابطہ دورہ کیا جو اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تھا۔ اس دورے کے موقعے پر انہوں نے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے ملاقات کی اور اب وہ ہفتے کے روز چین کے وزیر خارجہ کی دعوت پر چین کے دو روزہ دورے پر جارہے ہیں۔
امریکہ میں تجزیہ کار ان کے اس دورے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ لیکن وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کررہے ہیں۔
رابن ریفل امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیاء اور سابق سفارت کار ہیں۔اس دورے کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یقینًا یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے خوش آئند ہے اور آگے چل کر دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے یوکرین پر روسی حملے سے فوراً پہلےکیے جانے والے روس کے دورے کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا کہ وہ عمران خان کی سیاست اور ان کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود ان کے دورے کا اس لحاظ سے دفاع کریںگے کہ انہیں علم نہیں تھا کہ یو کرین کے خلاف روسی کارروائی اسی دن شروع ہو جائے گی جب وہ ماسکو میں ہوں گے۔
رابن ریفل کا بھی یہ کہنا تھا کہ یہ بالکل درست بات ہے۔ ہہت سے لوگوں کو اس بات کا یقین نہ تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کردے گا اور ان لوگوں میں خود یوکرین کے صدر بھی شامل تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کسی نئی خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کوئی ایسی بات نہ کریں جو یوکرین کے حوالے سے امریکی پالیسی کے برخلاف ہو۔ لیکن، انہوں نےیہ واضح کیا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے حل کے حق میں ہے۔
پاکستان کی یوکرین کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہو جانے کے امکان کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا، کیونکہ سابقہ حکومت نے اس حوالے سے معاملات کو جس نہج پر پہنچا دیا گیا تھا اور امریکہ کے خلاف جتنے جذبات بھڑکائے گئے تھے اور ان میں شدت آتی جا رہی تھی، موجودہ حکومت معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہے،تاکہ امریکہ کے ساتھ وسیع تعلقات کےلیے پھر سے بنیاد قائم کی جاسکے۔
اسی تناظر میں وزیر خارجہ بھٹو نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات چاہتا ہے، جس میں تجارت ہو نہ کہ امداد۔ اور یہ کہ یہ تعلقات صرف افغانستان، سیکیورٹی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر ہوں یہ وہ تمام باتیں ہیں جو نہ صرف سابقہ حکومت بلکہ گذشتہ ایک عشرے کی پاکستانی حکومتوں کے نظریات کی صدائے باز گشت ہیں۔ وہ تمام حکومتیں ان ہی باتوں پر اصرار کرتی رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا خوش دلی سے استقبال کیا گیا، جو آئندہ کےلیے نیک شگون ہے۔
ایلان برمن واشنگٹن میں قائم فارن پالیسی کونسل کے سینئر نائب صدر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بلاول کی اپنی شخصیت، ان کا خاندانی سیاسی پس منظر اور وقت کے تقاضوں نے مل کر ان کے دورے کو اہم بنا دیا۔ لیکن، ان کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج واشنگٹن کی نظروں میں اسلام آباد کا وہ مقام بحال کرنا ہے جو پہلے کبھی تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کے بارے میں اس کی خارجہ پالیسی کے سبب امریکہ میں عدم اعتماد کی فضا ہے اور ایسا لگتا کہ بظاہر پاکستان کی خارجہ پالیسی یوکرین اور روس کے حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسی کے برخلاف ہے اور نئے وزیر خارجہ کےلیے پرانے اعتماد کو بحال کرنے کا چیلن موجود ہے۔
کیا یوکرین پر روسی حملے اور کریملن کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھتے ہیں، اس بارے میں برمن کا کہنا تھا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ پاکستان کے پاس اپنی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹیجک متبادل محدود ہیں، کیونکہ پاکستان اپنا جغرافیہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس کو چین اور بھارت کے ہمسائے میں ہی رہنا ہے۔ اسے بھارت۔ امریکہ قریبی تعلقات پر تشویش بھی ہے اور اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ امریکہ مشرقی جنوبی ایشیا میں آئندہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہےیہ دیکھنا بہت اہم ہے۔اور اس پر آئندہ کے تعلقات کا بڑی حد تک انحصار ہے۔
امریکہ کے دورے کے فورا بعد پاکستانی وزیر خارجہ کے چین کے دورے کے بارے میں ایلان برمن سمجھتے ہیں کہ چین ہاکستان کےلیے کئی اعتبار سے اہم ہے وہ اس کا سب سے قریبی اور سب سے بڑا پڑوسی ہے اور پاکستان کے پاس اس کے ساتھ ساجھے داری کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس تعلق میں گہرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کو مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اور مغرب کے ساتھ پاکستان کے مضبوط تعلقات چین کے اثرو رسوخ کو کم کرسکتے ہیں اور اس نقطہ نظر سے پاکستان کے وزیر خارجہ کا چین کا دورہ اہم ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس خطے کے حوالے سے مغرب کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔