مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ فوج سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کا فیصلہ حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے کیا جائے گا۔
گلگت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فوج سمیت کسی بھی ریاستی ادارے سے بات چیت کا فیصلہ اب حزبِ اختلاف میں شامل 11 سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا۔
واضح رہے کہ مریم نواز نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج میرا ادارہ ہے۔ ہم ضرور بات کریں گے۔ لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور وہ بات اب عوام کے سامنے ہو گی۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہو گا۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر غور کیا جا سکتا ہے۔
پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے اثرات ملک کے دیگر صوبوں کی سیاسی صورتِ حال پر اثر انداز ہوں گے۔ اسی لیے یہاں انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری یقینی بنائی جائے۔
کسی بھی ریاستی ادارے کا نام لیے بغیر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 25 جولائی 2018 کو عمران خان کو ملک پر مسلط کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر گلگت بلتستان کے انتخابات میں وہی عمل دہرایا گیا تو پھر انتخابات کے نتائج کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
ان کے بقول پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت مخالف تحریک کا دائرہ گلگت بلتستان تک پھیلایا جا سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز سے ملاقات کی تھی جس کے بعد دونوں جماعتوں کے مشترکہ بیان میں بھی انتخابی عمل کو صاف، شفاف اور غیر جانب دار بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کے انتخابات اور چھوٹی جماعتوں کا جھکاؤ
گلگت بلتستان کے انتخابات میں بظاہر تین مرکزی سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ البتہ بعض مقامی مذہبی سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدوار بھی کچھ حلقوں میں کامیابی کی امید کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق زیادہ تر حلقوں میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ منقسم ہیں جس کا براہِ راست فائدہ بڑی سیاسی جماعتوں کو ہو سکتا ہے۔
SEE ALSO: گلگت بلتستان کے انتخابات اس بار اتنی اہمیت کیوں اختیار کر گئے ہیں؟اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں پر اتوار کو ہونے والے انتخابات میں چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی کئی حلقوں میں کھڑے ہیں۔ ان میں اہلِ تشیع فرقے کی دو جماعتیں مجلس وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک پاکستان سرِ فہرست ہے۔
تاہم مرکز میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر بشارت حسین کا کہنا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے ساتھ ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے جس سے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ اہل تشیع برادری کے زیادہ تر لوگوں کی سیاسی ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا اس بار پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی زیادہ حمایت کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ 2015 کے انتخابات میں اہلِ تشیع کے دونوں دھڑوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی تھی جس سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہوا تھا۔ اُس وقت وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم تھی۔
اس حوالے سے سینئر صحافی مسعود خان کہتے ہیں کہ مجلس وحدت المسلمین کے دو امیدواروں جب کہ اسلامی تحریک پاکستان کے ایک نشست پر نامزد امیدوار کی پوزیشن مستحکم دکھائی دیتی ہے۔
اہل تشیع کے دونوں دھڑوں کے حکمران جماعت تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس طرح اہلِ سنت جماعت 'راہ حق' کے امیدواروں کے میدان میں ہونے کے باعث جمعیت علما اسلام (ف) کے امیدواروں کو دیا میر اور چلاس کے اضلاع میں مشکلات کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلگت بلتستان قومی موومنٹ نے تین حلقوں پر امیدوار نامزد کیے ہیں جن میں گلگت بلتستان کا حلقہ نمبر دو سے پارٹی کے سربراہ عبدالواحد بھی میدان میں اترے تھے۔
عبدالواحد نے الیکشن کمشن سے برفانی چیتے کا انتخابی نشان نہ ملنے پر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ عبدالواحد سابق وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کے مدِ مقابل تھے۔ مسلم لیگ الیکشن کمشن کے اس فیصلے سے خوش دکھائی دے رہی ہے۔
بلاورستان قومی موومنٹ نامی تنظیم کے سربراہ نواز خان ایک بار پھر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کا اندرونی طور پر مسلم لیگ سے اتحاد ہے۔
غذر کے علاقے میں نواز خان کو کافی مقبولیت حاصل ہے اور زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
ورکرز پارٹی نے ایک ہی حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، جب کہ دیگر حلقوں میں اس جماعت کے کارکن منتشر دکھائی دیتے ہیں۔ اس جماعت کے سربراہ بابا جان جیل میں ہیں۔ جب کہ جماعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھی 14 مختلف حلقوں سے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ورکرز پارٹی کے زیادہ تر کارکن دیگر حلقوں میں پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔