پاکستان کے بیشتر عوامی حلقے یہ خیال کررہے ہیں کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لیا جاسکتا ہے اور اس کے عوض ملک میں دہشت گردی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ اگرچہ اب بھی پاکستان ہی سب سے زیادہ دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے اور ہفتے میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جس دن کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہ ہو تاہم اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا خیال دہشت گردوں کو کوئی بھی بڑی کارروائی کرنے پر اکساسکتا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے صدر مقام پشاور کے ایک پولیس اہلکار نے جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا ہے ، ذرائع ابلاغ کو بتایا " اسامہ کی موت کے بعد سب سے زیادہ پریشان ہم پولیس اہلکار ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ اسامہ کی موت کے بعد تشدد پھیلا ،یا دہشت گردی کی کوئی وار دات ہوئی تو سب سے زیادہ سیکورٹی اہلکار ہی نشانہ بنتے ہیں۔”
واقعات بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات سیکورٹی اداروں، سیکورٹی اہلکاروں، نیم فوجی دستوں اور خفیہ اہلکاروں کے خلاف پیش آئے ہیں۔ مساجد میں بھی زیادہ تر ایسی ہی مساجد دہشت گردی کا نشانہ بنیں جو یا تو کسی چھاؤنی میں یا چھاؤنی سے قریب واقع ہیں اور جہاں سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد عبادت کی غرض سے آتی ہے۔
دوسرے نمبر پر پولیس چوکیاں یا سیکورٹی چیک پوسٹس دہشت گردوں کا نشانہ بنیں اس لئے ایک عام پولیس والے کا کسی انجان خطرے سے خوف زدہ ہونا فطری امرمعلوم ہوتا ہے۔
مبصرین کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان میں القاعدہ تنظیم سے براہ راست وابستہ افراد کی تعداد نہایت قلیل مگر القاعدہ یا طالبان فلاسفی کے اہم خیال عسکریت پسندوں گروپوں کی تعداد زیادہ ہے جو پاکستان کے علاوہ بیرون ملک سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف حکومتی کارروائیاں بھی اب تک زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔
کراچی کی ایک مسجد کے پیش امام کا کہنا ہے " عسکریت پسند ابھی اسامہ کی موت کے سکتے میں ہیں ، کچھ دنوں میں وہ اپنا لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں جو یقینا اچھا نہیں ہوگا ۔ اللہ خیر کرے"
کوئٹہ پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں سب سے پہلے اسامہ کی موت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں شریک ایک20 سالہ اسکول ٹیچر لیق سعید نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔" امریکی جہازوں نے ایک مسلمان کو مارا ہے ، اس کے خلاف مظاہرے تو ہوں گے ہی"
کچھ سیاست دانوں اور سرگرم کارکنوں نے بھی اسامہ کے حق میں آواز اٹھائی ہے مگر دبے دبے انداز میں۔ وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل نے دہشت گردی میں ممکنہ اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسامہ کی موت کو فتح قرار دیا ہے۔