ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ اگلے پانچ سے سات برسوں میں انسانی جسم میں لیب میں تیار کردہ گردوں کی پیوند کاری کا طریقہ ڈھوند لیا جائے گا۔
واشنگٹن —
امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر بوسٹن میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک چوہے کا گردہ تخلیق کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی ایجاد سے مستقبل میں انسانوں کے رہنے کا انداز بدلا جا سکتا ہے۔ یہ ایجاد بطور ِ خاص ان لوگوں کے لیے اچھی ہے جو گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں اور جنہیں گردوں کے عطیے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
صرف امریکہ میں ہی ہر برس 17,000 سے زائد لوگ گردوں کے مرض کی آخری سٹیج میں کسی دوسرے شخص کی جانب سے گردہ عطیہ کیے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد گردوں کے ان مریضوں کی تعداد کا محض ایک معمولی سا عدد ہے جو گُردوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور گردوں کے ٹرانسپلانٹ ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ان میں سے 90٪ افراد ڈائلیسس پر ہیں جبکہ بہت سے افراد گردہ ملنے کے انتظار اور آس میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سٹیفن بیڈیلیک جو اعضاء کی پیوند کاری کے ماہر ہیں، کے مطابق، ’ تحقیق دان ہیرلڈ اوٹ اور بوسٹن میساچوسسٹس جنرل ہاسپٹل میں ان کے ساتھیوں کی یہ نئی دریافت میڈیکل سائنس کے لیے خوش کن ہے۔‘
ماہرین کا کنہا ہے کہ گو کہ ڈاکٹر ہیرلڈ اوٹ کی لیبارٹری میں چوہے کا گردہ یوں تو فعالیت کے اعتبار سے متاثر کن تھا لیکن یہ گردہ اس طرح سے کام نہیں کر سکا جس طرح کہ انسانی جسم میں موجود گُردہ کرتا ہے۔
سٹیفن بیڈیلیک کہتے ہیں کہ جس تیزی سے شعبہ ِ طب میں ترقی ہو رہی ہے ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ اگلے پانچ سے سات برسوں میں انسانی جسم میں لیب میں تیار کردہ گردوں کی پیوند کاری کا طریقہ آج کے دور کی نسبت زیادہ آسان اور سہل ہوگا اور مریضوں کو گردے کے عطیے کے لیے انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی۔
امریکی محکمہ ِ خوراک و ادویات نے جو نئی ادویات، میڈیکل ڈیوائسز اور طریقہ ِ علاج کی منظوری دیتا ہے، اب تک اس گردے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ محکمہ پوری جانچ پڑتال اور باوثوق تجربات کے بعد ہی کسی طریقہ ِ علاج یا ادویات وغیرہ کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ اس عمل میں اکثر کئی سال بھی لگ جاتے ہیں۔
ہیرلڈ اوٹ کی جانب سے چوہے کا گردہ تخلیق کرنے کا یہ مضمون جرنل نیچر میڈیسن میں شائع کیا گیا۔
صرف امریکہ میں ہی ہر برس 17,000 سے زائد لوگ گردوں کے مرض کی آخری سٹیج میں کسی دوسرے شخص کی جانب سے گردہ عطیہ کیے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد گردوں کے ان مریضوں کی تعداد کا محض ایک معمولی سا عدد ہے جو گُردوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور گردوں کے ٹرانسپلانٹ ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ان میں سے 90٪ افراد ڈائلیسس پر ہیں جبکہ بہت سے افراد گردہ ملنے کے انتظار اور آس میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سٹیفن بیڈیلیک جو اعضاء کی پیوند کاری کے ماہر ہیں، کے مطابق، ’ تحقیق دان ہیرلڈ اوٹ اور بوسٹن میساچوسسٹس جنرل ہاسپٹل میں ان کے ساتھیوں کی یہ نئی دریافت میڈیکل سائنس کے لیے خوش کن ہے۔‘
ماہرین کا کنہا ہے کہ گو کہ ڈاکٹر ہیرلڈ اوٹ کی لیبارٹری میں چوہے کا گردہ یوں تو فعالیت کے اعتبار سے متاثر کن تھا لیکن یہ گردہ اس طرح سے کام نہیں کر سکا جس طرح کہ انسانی جسم میں موجود گُردہ کرتا ہے۔
سٹیفن بیڈیلیک کہتے ہیں کہ جس تیزی سے شعبہ ِ طب میں ترقی ہو رہی ہے ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ اگلے پانچ سے سات برسوں میں انسانی جسم میں لیب میں تیار کردہ گردوں کی پیوند کاری کا طریقہ آج کے دور کی نسبت زیادہ آسان اور سہل ہوگا اور مریضوں کو گردے کے عطیے کے لیے انتظار کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی۔
امریکی محکمہ ِ خوراک و ادویات نے جو نئی ادویات، میڈیکل ڈیوائسز اور طریقہ ِ علاج کی منظوری دیتا ہے، اب تک اس گردے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ محکمہ پوری جانچ پڑتال اور باوثوق تجربات کے بعد ہی کسی طریقہ ِ علاج یا ادویات وغیرہ کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ اس عمل میں اکثر کئی سال بھی لگ جاتے ہیں۔
ہیرلڈ اوٹ کی جانب سے چوہے کا گردہ تخلیق کرنے کا یہ مضمون جرنل نیچر میڈیسن میں شائع کیا گیا۔