ہم زندگی کے آغاز کا کھوج لگانے کے کتنے قریب ہیں؟

فائل فوٹو

  • ناسا کی زمین سے دس لاکھ میل کی بلندی پر گردش کرنے والی جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ نے ابتدائی کہکشاؤں کی تشکیل کو محفوظ کیا ہے۔
  • سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کہکشائیں تقریباً ساڑھے 13 ارب سال پہلے بننا شروع ہوئیں تھیں۔
  • ہماری زمین صرف ساڑھے چار ارب سال پرانی ہے۔
  • کہکشاؤں کے بننے کا عمل کا مطالعہ اس جانب رہنمائی کر سکتا ہے کہ زندگی کہاں سے آئی اور کیسے شروع ہوئی۔

رواں برس کے وسط میں ماہرین فلکیات نے خلا میں گردش کرنے والی ایک طاقت ور دوربین جیمز ویب کی مدد سے کائنات کے اس ابتدائی دور کا مشاہدہ کیا تھا جب تین اولین کہکشائیں وجود میں آ رہی تھیں۔

سائنسی اندازوں کے مطابق یہ واقعہ تقریبا ساڑھے 13 ارب سال پہلے ہوا تھا۔ جب کہ 13 ارب 80 کروڑ سال پہلے بگ بینگ کے دھماکے نے اس کائنات کو جنم دیا۔

بگ بینگ کیا ہے؟

کائنات کے اس اولین دھماکے کو بگ بینگ کہتے ہیں جس سے کہکشاؤں، ان کے شمسی نظاموں اور ان گنت اجرام فلکی کا جنم ہوا۔

بگ بینگ کے دھماکے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کائنات بننے سے پہلے خلا میں ایک بہت بڑا گولہ موجود تھا، جس کی وسعت اور حجم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ پھر ہوا یوں کہ وہ اپنے ہی اندرونی دباؤ کی شدت سے پھٹ گیا جس سے بڑے پیمانے پر توانائی خارج ہوئی۔

اس اندرونی دباؤ کو مقناطیسی قوت کہتے ہیں۔ کائنات میں موجود ہر کہکشاں، ستاروں اور سیاروں اور خلا میں گردش کرنے والے اجسام کے اندر مقناطیسی قوت موجود ہے۔ جو ان چیزوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے جن کی مقناطیسی طاقت کم ہوتی ہے۔ اسی مقناطیسی قوت سے ستارے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں اور کہکشاؤں کا نظام قائم ہے۔

ناسا کی خلائی دوربین جیمز ویب اسپیس سے لی گئی ایک تصویر۔

بلیک ہول کیا ہیں؟

کائنات میں ایسے بڑے بڑے اجسام بھی موجود ہیں، جن کی مقناطیسی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ وہ قریب آنے والی چیزوں کو اپنے اندر ہڑپ کر لیتے ہیں۔ انہیں سائنس کی زبان میں بلیک ہول کہتے ہیں۔

بلیک ہول ہمیں نظر نہیں آتے۔ ہم صرف اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں جن سے روشن کی کرنیں ٹکرا کر واپس آتی ہیں اور ہماری آنکھوں سے ٹکراتی ہیں۔ جب کہ بلیک ہول روشنی کو بھی واپس نہیں جانے دیتے۔ اس کائنات میں بہت سے بلیک ہول موجود ہیں۔

ایک نظریہ ہہ ہے کہ بڑے بلیک ہول چھوٹے بلیک ہول نگل جاتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ سب بلیک ہول ضم ہو کر ایک بڑا گولہ بن جاتے ہیں جس کا اندرونی دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ پھٹ جاتا ہے اور پھر ایک نئی کائنات وجود میں آ جاتی ہے۔

فلکیات کے ماہرین طویل عرصے سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری کائنات کب اور کیسے وجود میں آئی اور ارتقا کے اس عمل کے دوران کن کن مراحل سے گزری۔

ساڑھے تین کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک کہکشاں کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصویر۔

ہماری زمین اور نظام شمسی اس کائنات میں بہت نیا ہے۔ یہ صرف چار ارب 60 کروڑ سال پہلے وجود میں آیا تھا۔ جب کہ پہلی کہکشاں 13 ارب سال سے زیادہ پہلے بن گئی تھی۔

ستاروں کی عمر کیسے معلوم کی جاتی ہے؟

کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور دوسرے اجرام فلکی کی عمر کا تعین تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اول، بہت پرانے ستارے سے اس کا موازنہ، دوسرا طریقہ اس کی گردش کی رفتار کا مطالعہ اور تیسرا طریقہ اس سے خارج ہونے والی روشنی کی پیمائش ہے۔

ستارے جیسے جیسے پرانے ہوتے ہیں ان کی گردش کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح جب ستارے وجود میں آتے ہیں تو بہت روشن ہوتے ہیں،پھر آہستہ آہستہ ان کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے۔ تاہم یہ سو یا ہزار برس کی بات نہیں ہے۔ یہ اربوں سالوں کا سفر ہے۔

ستاروں کے فاصلوں کا پیمانہ روشنی ہے

شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ جن کہکشاؤں کی بات ہو رہی ہے وہ تقریباً ساڑھے 13 ارب سال پہلے بننا شروع ہوئیں تھیں تو سائنس دانوں نے انہیں اب دوربین سے کیسے دیکھ لیا؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے فاصلہ۔ کائنات میں فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی پیمائش روشنی سے کرنی پڑتی ہے۔ روشنی ایک منٹ میں ایک لاکھ 86 ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ یہ کائنات اتنی وسیع و عریض ہے کہ کئی ستارے ہم سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی، جب کہ زمین کو وجود میں آئے ہوئے بھی ساڑھے چار ارب سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

کائنات میں بکھرے ہوئے ستاروں کی ایک تصویر۔

اسی طرح کچھ ستارے ایسے بھی ہیں جو ہمیں آسمان پر چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب کہ انہیں فنا ہوئے بھی اربوں سال ہو چکے ہیں۔ جتنا عرصہ وہ چمکتے رہے ہیں، ان سے خارج ہونے والی روشنی بھی اتنی ہی مدت تک سفر کرتی رہے گی۔

جمز ویب دوربین کے جدید اور طاقت ور نظام سے سائنس دانوں نے جن تین کہکشاؤں کو بنتے ہوئے دیکھا ہے وہ تقریباً 13 ارب 40 کروڑ نوری سال یعنی روشنی کے سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔

اولین کہکشاؤں کا ارتقا

کہکشاؤں کے بننے کا مشاہدہ کرنے والے ماہرین فلکیات کا تعلق ڈنمارک کی کوپین ہیگن یونیورسٹی کے نیلز بوہر انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ اس تحقیق سے منسلک پروفیسر کیسپر ایلم ہینٹز کہتے ہیں کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کہکشاں بننے کے وقت کی پہلی تصویریں ہیں جسے ہم نے براہ راست دیکھا۔ ہم نے کہکشاؤں کی پیدائش کا مشاہدہ کیا اور کائنات میں ستاروں کا اولین نظام بنتے ہوئے دیکھا۔

اس تحقیق میں شامل سائنس دانوں کو بڑی مقدار میں گیسیں نظر آئیں جو ایک چھوٹی کہکشاں کی شکل میں اکھٹی ہو رہی تھیں۔ کہکشاں کی تشکیل کا عمل تقریباً اسی طرح کا تھا جیسا کہ سائنس دان اپنے نظریات اور کمپیوٹر کے ماڈلز میں پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اپنی آنکھ سے اس کے مشاہدے کا موقع انہیں اب ملا ہے۔

زمین سے ساڑھے چار سو نوری سال کے فاصلے پر واقع گیسیوں اور خلائی گرد کے مجموعے کی ایک تصویر۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تین کہکشاؤں کے بننے کا عمل بگ بینگ دھماکے کے تقریباً 40 سے 60 کروڑ سال کے بعد شروع ہوا۔ پروفیسر ڈارچ واٹسن کا کہنا ہے کہ بگ بینگ کے چند کروڑ سال کے بعد سب سے پہلے ستارے وجود میں آئے اور پھر اس کے بعد کہکشاں بنی۔ ارتقا کے اس عمل میں ہائیڈروجن گیس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ہائیڈروجن ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو ہر ستارے اور کہکشاں کی تشکیل میں شامل ہے۔

بگ بینگ سے خارج ہونے والے بنیادی ایٹمی ذرات

فلکیات کے ماہرین کہتے ہیں بگ بینگ دھماکے سے بڑی مقدار میں جوہری ذرات کوراک اور الیکٹران خارج ہو کر کائنات میں بکھر گئے ۔ کوراک وہ بنیادی ذرات ہیں جو ایٹمی ذرات کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ جب کہ الیکٹران کسی بھی اہٹم کا وہ سب سے چھوٹا ذرہ ہے جو اپنے مرکز کے گرد گھومتا ہے۔ بگ بینگ سے خارج ہونے والے ایٹمی ذرات نے جڑ کر دو نئے جوہری ذرات پروٹان اور نیوٹران بنائے۔ جنہوں نے اکھٹے ہو کر ایٹم کا مرکزی حصہ بنایا اور الیکٹران اس کے گرد گردش کرنے لگے۔

پروٹان اور الیکٹران کی مخصوص تعداد کسی بھی عنصر کا ایٹم بناتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن گیس کے ایٹم کے مرکز میں ایک پروٹان ہوتا ہے اور ایک الیکٹران اس کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح جب کسی ایٹم کے مرکزے میں 8 پروٹان اکھٹے ہو جائیں اور 8 الیکٹران اس کے گرد گھومنے لگیں تو وہ آکسیجن کا ایٹم بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایٹم کے مرکزے میں 79 پروٹان سما جائیں اور 79 الیکٹران اس گرد گھومنے لگیں تو وہ سونے کا ایٹم بن جائے گا۔

اولین کہکشاؤں کا مشاہدہ کیوں اہم ہے؟

کائنات کی اولین کہکشاؤں کو اپنی آنکھوں سے بنتے ہوئے دیکھنے کو سائنس دان ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جانب سفر کی ایک اہم منزل ہے، جس کے بارے میں ہر انسان متجسس ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔

ابتدائی کہکشاؤں کی تشکیل کا لمحہ ہمیں اس جواب کے مزید قریب لے آیا ہے جسے انسان اس وقت سے ڈھونڈ رہا ہے جب سے اس نے سوچنا شروع کیا تھا۔ اس تحقیق سے منسلک پروفیسر گیبرئیل برامر کہتے ہیں کہ اس مشاہدے سے ہمیں کائنات کی مزید کچھ کڑیاں جوڑنے میں مدد ملی ہے۔ ہم اس پر تحقیق جاری رکھیں گے اور کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے۔

تجسس کے اس سفر نے ہمیں کائنات کی اس پہلی کڑی کے بہت قریب پہنچا دیا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟