|
الیکٹرانک اور ڈیجیٹل آلات کی ترقی، ارزانی اور باآسانی دستیابی نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ ان سے زندگی میں سہولیتں، آسائشیں اور آسانیاں آئیں ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے ان سے کچھ ایسے مسائل بھی پید ہو رہے ہیں جو ہماری دماغی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ہاتھ سے لکھنے کی بجائے ٹائپنگ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔
اب دنیا بھر میں زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں سمارٹ فون آ چکا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ فون کی چھوٹی سی سکرین پر دو انگوٹھوں کی مدد سے تیزی سے ٹائپ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جنہیں کچھ زیادہ لکھنا ہوتا ہے، وہ ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ یا پھر کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر اپنی دو انگلیوں سے، یا ٹائپنگ میں مہارت رکھنے والے دونوں ہاتھوں کی آٹھ انگلیوں سے ٹائپ کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اب یہ منظر کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی قلم سے کاغذ پر لکھ رہا ہو۔
ترقی یافتہ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں کے ماڈرن اسکولوں کی ابتدائی کلاسوں میں ہی بچوں کو کمپیوٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسکولوں کے اگلے درجوں میں اب قلم، کاغذ، کاپیاں اور کتابیں دکھائی نہیں دیتیں، اس کی بجائے بچے ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہیں۔ بچوں کے کندھوں سے بھاری بستوں کا بوجھ تو اتر گیا ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے بچوں کی ان صلاحیتوں میں بھی کمی آئی ہے جس کا تعلق یاد داشت اور سیکھنے سے ہے۔
کراچی میں قائم ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے سائیکالوجی کے پروفیسر بریگیڈیر (ر) ڈاکٹر شعیب احمد (ستارہ امتیاز) نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں جو مختلف امور سرانجام دیتے ہیں۔ بایاں حصہ جسم کے ان افعال کو کنٹرول کرتاہے جن کا تعلق زیادہ تر حرکات و سکنات سے ہے۔ جب کہ دائیں حصے کا تعلق تحلیقی صلاحیتوں سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم ٹائپ کرتے ہیں تو وہ ایک طرح سے مشینی عمل ہوتا ہے۔ دماغ حرفوں اور لفظوں کی ساخت وغیرہ پر دھیان نہیں دیتا، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بٹن کو چھونے سے وہ ظاہر ہو جائیں گے، ان کی ساخت ڈھالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جب ہم قلم سے لکھتے ہیں تو ہمارے دماغ کا دایاں حصہ بھی کام کرتا ہے اور ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ کے دونوں حصے مل کر کرتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ کیوں کہ دماغ کا بایاں حصہ جسم کے دائیں حصے کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے جب کہ جسم کا دائیاں حصہ، دماغ کے بائیں حصے کے تابع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شعیب نے بتایاکہ جب ہم ہاتھ سے کاغذ پر لکھتے ہیں تو وہ تحریر صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ ہماری یاد داشت میں بھی نقش ہو رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو طالب علم ہاتھ سے نوٹس تیار کرتے ہیں، وہ انہیں ان طالب علموں کی نسبت بہتر طور پر یاد رہ جاتے ہیں جو انہیں ٹائپ کرتے ہیں۔
ہاتھ سے لکھنے اور ٹائپنگ کا عمل دماغ پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے ناورے کے شہر ٹران ہیم میں قائم نارویجین یونیورسٹی آف سائنس اینڈٹیکنالوجی میں ماہرین نے تین درجن طالب علموں کو اپنے اس تجربے میں شامل کیا اور انہیں ہاتھ سے لکھنے اور ٹائپ کرنے کے لیے کہا۔ اس دوران ان کے دماغوں کے الیکٹرانک سیکن لیے گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ میں برقی لہریں زیادہ متحرک اور روشن تھیں جب کہ ٹائپنگ کرتے وقت ان میں محدود فعالیت دیکھی گئی۔
شعبہ نفسیات کی پروفیسر اور اس مطالعے کی شریک مصنف آڈری وین ڈرمیر کہتی ہیں کہ اس تجربے میں ہم نے ٹائپنگ کے دوران دماغ میں پیدا ہونے والی برقی لہروں میں وہ منظم ارتعاش نہیں دیکھا جس کا مشاہدہ ہمیں ہاتھ سے لکھنے کے تجربے میں ہوا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ کے اعصاب کی فعالیت سے بھرپور ہوتا ہے۔
اکثر طالب علم بھی اس مشاہدے سے گزرتے ہیں۔ حال ہی میں ایم فل کرنے والی ایک طالبہ مریم ادریس نے لاہور سے وی او اے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جو چیز میں ہاتھ سے لکھتی ہوں، وہ مجھے زیادہ یاد رہتی ہیں۔ امتحان کی تیاری کے لیے میں چیزوں کو ہاتھ سے لکھ کر یاد کرتی ہوں۔ میں ٹائپنگ زیادہ تر اسائنمٹس کے لیے کرتی ہوں کیونکہ اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔
امریکی ریاست ورجینیا کی ریڈفورڈ یونیورسٹی کی ایک ماہر نفسیات کیتھلین آرنلڈ کہتی ہیں کہ ٹائپنگ کے مقابلے میں ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ میں برقی لہروں کے ارتعاش میں اضافہ تو ہوتا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا یاد داشت سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اس پر مزیدتحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شعیب احمد اسے ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اس عمل میں دماغ کا وہ حصہ بھی شریک ہوتا ہے جس کا تعلق تخلیقی صلاحیتوں سے ہے۔ وہ حصہ لفظوں کی ساخت پر بھی دھیان دے رہا ہوتا ہے۔ جب آپ کسی چیز پر توجہ دیتے ہیں تو وہ ہماری یاد داشت میں منتقل ہو جاتی ہے۔
اسی چیز کو وین ڈرمیر اس طرح بیان کرتی ہیں کہ جب آپ کلاس روم میں لیکچر کے دوران لیپ ٹاپ پر نوٹس لے رہے ہوتے ہیں تو صرف آپ کے کان اور آپ کا ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھتے ہیں تو اس عمل میں آپ کا دماغ بھی شامل ہو جاتا ہے اور وہ اس انفارمیشن کو پراسس کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ہاتھ سے لکھنے کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہے۔ ریاست ٹینیسی کی وینڈربلٹ یونیورسٹی کی ایک ماہر نفسیات ونسی بروہر کہتی ہیں کہ بچوں کا ابتدائی عمر میں ہاتھ سے لکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے ان میں لفظوں اور ہندسوں کی پہچان مضبوط ہوتی ہے۔ جب بچہ لفظوں کو بار بار مختلف انداز میں لکھتا ہےتو اس کا فہم بڑھتا ہے۔
امریکہ کی کئی ریاستیں اس کا ادراک کر رہی ہیں اور اس سال سے ریاست کیلی فورنیا نے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ ایلیمنٹری اسکولوں میں بچوں کو ہاتھ سے لکھنا اور حرفوں کو جوڑنا سکھایا جائے۔ اسی بارے میں انڈیانا، کنٹکی، ساؤتھ کیرولائنا اور وسکانسن کی ریاستوں میں بھی قانون سازی کی جا رہی ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ اطلاقی نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد سیلم کی سوچ اس سے مختلف ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسان نے ہاتھ سے لکھنے کا فن تین ہزار سال قبل از مسیح سے پہلے سیکھ لیا تھا، جب کہ ٹائپ رائٹر 18 ویں صدی کے وسط میں سامنے آیا، الیکٹرانک کی بورڈ کا ظہور 19 ویں صدی کے وسط میں ہوا اور لکھنے کے ڈیجیٹل آلات چند عشرے قبل ایجاد ہوئے۔ ان سب کی اپنی اپنی افادیت ہے اور یہ سب مختلف انداز میں ہماری یاد داشت پر اثر ڈالتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے لکھنا ایک سست عمل ہے جب کہ ’کی بورڈ‘ ایک تیز رفتار آلہ ہے، جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے یہ اضافی مدد بھی حاصل ہوتی ہے کہ الفاظ کے ہجوں اور گرائمر کی درستگی بھی خود بخود ہوتی چلی جاتی ہے۔
قلم سے ہزاروں سال کا نسل در نسل تعلق ہماری یاد داشت میں حیاتیاتی طور پر ثبت ہو چکا ہے اور اسی لیے جب ہم قلم سے لکھتے ہیں تو ہماری یاد داشت اسے فوراً قبول کر لیتی ہے اور ہمیں وہ چیز دیر تک یاد رہتی ہے۔ جب کہ ٹائپنگ ہماری یاد داشت کے لیے ابھی اجنبی ہے اور اسے یاد رکھنے کے لیے ہمیں توجہ دینی پڑتی ہے۔
ڈاکٹر سیلم کہتے ہیں کہ ہمیں ایک ہائبرڈ نظام اپنا کر ان دونوں طریقوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور بچوں کو اسکول کے ابتدائی دور سے ہی قلم سے لکھنا اور ٹائپنگ دونوں سکھانا چاہیے۔
فورم