امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے، جو حماس کے ایک بڑے حملے کے بعد ، عرب خطے میں سکون قائم رکھنے کی کوشش میں غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقے کے قیام پر کام کر رہے ہیں، جمعے کے روز اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں سے اجتناب کرے۔
چھےعرب ملکوں کے ایک دورے میں ، بلنکن نے تل ابیب میں، یکجہتی کے اظہار کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی کے حق کا ایک بار پھر دفاع کیا لیکن انہوں بے گناہ فلسطینیوں کے تحفظ پر بھی زور دیا۔
قطر میں ایک نیو ز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا، ہم نے اسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لیں ۔
انہوں نے کہا ، "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینی خاندان مصائب میں مبتلا ہیں جس میں خودان کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ کہ فلسطینی شہری اپنی جانیں کھو چکے ہیں ۔"
لیکن بلنکن نے کہا کہ" حماس کے خوفناک حملوں کے بعد" اسرائیل اپنے حقوق کے دائرے کے اندر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو کچھ کررہا ہے وہ انتقامی کارروائی نہیں ہے ۔ وہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کا دفاع کررہا ہے ۔"
انہوں نے کہا کہ ،" کوئی بھی ملک جسے اس صورتحال کا سامنا ہوتا جس کا اسرائیل شکار ہوا تو وہ ممکنہ طور پر یہ ہی کچھ کرتا۔"۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو اسرائیل کی جنوبی سرحد میں در اندازی کی تھی اور اس کے حملوں میں1300 لوگ ہلاک ہوئے تھے، جن میں بچے، بوڑھے اور موسیقی کےایوینٹ میں شریک افراد شامل تھے ۔
اس حملے کے بعد سے اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے اندھا دھند حملوں میں کم از کم 1799 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اسرائیؒل نے وہاں خوراک ، پانی اور بجلی کا سلسلہ منقطع کر دیا ہےاوراس کی طرف سے کوئی زمینی حملہ بھی متوقع ہے
SEE ALSO: اسرائیل کی غزہ پر زمینی حملے کی تیاری لیکن ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیاحماس کے ساتھ اب معمول کا کوئی کام نہیں ہو سکتا
بلنکن نے قطر کو ، جس کے حماس کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں، عسکریت پسندوں سے لگ بھگ 150 یرغمالوں کی رہائی پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں تیزی دکھانے پر سراہا۔
لیکن انہوں نے امریکہ کےاس قریبی شراکت دار کو حماس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے بارے میں متنبہ بھی کیا جس کا قطر کے دار الحکومت دوحہ میں ایک دفتر ہے جہاں زیادہ تر عسکریت پسندوں کے لیڈر اسماعیل ہانیہ رہتے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ ، شیر خوار بچوں کو قتل کرنے والے ، خاندانوں کو جلا کر ہلاک کرنے والے ، ننھے بچوں کو یرغمال بنانے والے حماس کے ساتھ اب معمول کا کوئی کام نہیں ہو سکتا ۔
تاہم قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان الثانی نے حماس کے دفتر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کمیونی کیشن کا مقصد پورا کیا ہے ۔
عام شہریوں کے تحفظ کے طریقوں پر بات چیت
اب جب کہ عرب دنیا میں برہمی پھیل رہی ہے ، بلنکن نے حماس کے کنٹرول والے غزہ میں عام شہریوں کے تحفظ کے طریقوں پر بھی بات چیت کی۔ اسرائیل نے کسی متوقع زمینی حملے سے قبل دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو علاقہ چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ اس نے یہ اپیل جمعے کے رو ز کی ۔
ایک امریکی عہدے دار نے کہا ہے کہ تل ابیب میں بلنکن کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کچھ ایسے محفوظ علاقے قائم کرنے کی ضرورت پر متفق ہو گیا ہےجہاں شہریوں کو منتقل کیا جا سکے اور جہاں وہ اسرائیل کی سیکیورٹی کی جائز کارروائیوں سے محفوظ رہ سکیں ۔
بلنکن کے طیارے میں موجود ایک امریکی عہدے دار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسرائیلی اس کا عزم رکھتے ہیں۔
تاہم امریکی عہدے داراس سے قبل کی ان کوششوں سے بظاہر ہٹتے ہوئے بھی دکھائی دیے جن کے تحت غزہ کے شہریوں کو جان بچانے کے لیے پڑوسی ملک مصر جانے دیا جارہا تھا۔ عہدے داروں کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی زیادہ حمایت دکھائی نہیں دیتی اور اس کی بجائے وہ چاہتے ہیں کہ غزہ کے اندر ہی محفوظ علاقے قائم کیے جائیں۔
عہدے دار نے کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ مصر اور اسرائیل دونوں کے ساتھ کا م کررہا ہےکہ امریکیوں اور دوسرے غیر ملکی شہریوں کو رفاہ کی سرحدی گزر گاہ کے ذریعے نکلنے دیا جائے ۔
انسانی ہمدردی کی راہداریاں
بلنکن نے دن کا آغاز عمان میں شاہ عبد اللہ ثانی اور صدر محمود عباس سے مشاورت سے کیا ۔ اردن کے رائل کورٹ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اردن کے شاہ نے جو امریکہ کے ایک دیرینہ شراکت دار ہیں انسانی ہمدردی کی راہداریوں کے لیے زور دیا تاکہ غزہ میں امدادی سامان لایا جا سکے اور صورتحال کی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
عبداللہ نےجن کی سلطنت میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی مہاجر رہتے ہیں اس بار غزہ سے کسی اور مستقل نقل مکانی کے خلاف انتباہ کیا ۔
شاہ نے بلنکن کو بتایا کہ ، اس بحران کو پڑوسی ملکوں تک نہیں پھیلنا چاہیے اور اس سے پناہ گزینوں کے مسئلے کو بد تر نہیں کرنا چاہیے ۔
قطر کے بعد امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار نےبحرین میں قیام کیا اور وزیر اعظم اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن حماد الخلیفہ سے ملاقات کی جس کے بعد وہ سعودی عرب پہنچے۔
سعودی عرب نے حملوں سے قبل کے ہفتوں میں امریکی قیادت کی سفارت کاری میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں پیش رفت کی بات کی تھی ۔یہ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کی محافظ قدامت پسند سلطنت کے لیے ایک تاریخی قد م ہو سکتا ہے ۔
بہت کم لوگوں کو توقع ہے کہ یہ حالات بر قرار رہ سکیں گے کیوں کہ سعودی عرب فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی پالیسیوں کو تشدد میں اضافے کا الزام دینے میں قطر کے ساتھ شامل ہو رہا ہے ۔
بلنکن نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کام کرنے کا بھی وعدہ کیا اور گزشتہ ہفتے مغربی کنارے میں سکون برقرار رکھنے کی کوششوں پر عباس کو سراہا۔
لگ بھگ 88 سال کی عمر کے محمود عباس ، جن کی فلسطینی اتھارٹی کی مغربی کنارے میں چھوٹی سطح کی خود اختیاری قائم ہے ، حماس کے کٹر دشمن ہیں جس نے 2007 میں غزہ کی پٹی کا کنٹرول چھین لیا تھا۔
بلنکن عمان میں ان کی نجی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے اس پینٹنگ کے سامنے مصافحہ کیا جس میں بزرگ فلسطینی لیڈر یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے سامنے کھڑے تھے ۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو بہت پہلے سے یہ کہتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی اور عباس کو اس معاملے سے الگ کر چکے ہیں کہ تشدد کو روکنے کے سلسے میں ان کا عزم ناکافی ہے،جب کہ سخت موقف کی اسرائیلی حکومت دو ریاستی حل کے امکان کو مسترد کر تی ہے ۔
بلنکن اپنے اپنے دورے کے دوران ، متحدہ عرب امارات اور مصر بھی جا رہے ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)