امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے واضح کیا ہے کہ امریکہ ایران پر عائد پابندیاں اس وقت تک ختم نہیں کرے گا جب تک وہ جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کرتا۔
اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے کے اگلے ہی روز بدھ کو پہلی نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ جوہری معاہدہ بحال کرنے کے مرحلے سے ابھی بہت دُور ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ وہ ایران کا یہ دباؤ ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ جس میں امریکہ سے پہل کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اسی صورت بحال ہو سکتا ہے اگر ایران جوہری معاہدے پر مکمل عمل کر کے دکھائے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کی کئی شقوں پر ایران اب بھی عمل نہیں کر رہا اور شاید اسے یہ فیصلہ کرنے کے لیے وقت چاہیے کہ وہ جوہری معاہدے پر عمل کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ لہذٰا ہم بھی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے خطے میں موجود اتحادیوں سے بھی مشاورت کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ معاملات سفارتی سطح پر طے کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ایران عالمی قوتوں کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے پر من و عن عمل کرے۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہو گا جب کہ اس کے بدلے امریکہ نے اس پر عائد پابندیاں ہٹا لی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
البتہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
امریکہ کا یہ الزام رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو خطرہ ہے۔ تاہم ایران کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر مجید تختروانچی نے بدھ کو امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' میں لکھے گئے اپنے مضموں میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو ٹرمپ دور میں ایران پر عائد کی جانے والی تمام پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہیئں۔
مجید تختروانچی کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی ایران جوہری معاہدے میں واپسی پر سوچے گا۔
مجید تختروانچی کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں ہٹائے جانے کے معاملے میں تاخیر سے یہی تاثر ملے گا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرح ایرانی عوام کے ساتھ عداوت برقرار رکھنا چاہتے ہیںَ۔