بلوچستان: سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی گمشدگی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کا اظہارِ تشویش

بلوچستان کے ضلع پنجگور اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی حالیہ جھڑپوں کو سوشل میڈیا پر اُجاگر کرنے والے سماجی کارکن کی گمشدگی پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ملک میران بلوچ نامی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سات فروری سے لاپتا ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ واقعہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے میران بلوچ کے بھائی محمد شریف بلوچ نے بتایا کہ وہ تین روز سے سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں لیکن اُن کے بھائی سے متعلق، ان کے الفاظ میں، کوئی کچھ نہیں بتا رہا۔

محمد شریف بلوچ کے بقول سات فروری کی صبح چار بجے جب گھر کے سارے افراد سو رہے تھے کہ وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگ آئے۔

شریف بلوچ نے الزام لگایا کہ مذکورہ افراد دروازے پر دستک دینے کے بعد مبینہ طور پر زبردستی گھر میں گھس گئے اور میران بلوچ کو زدو کوب کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔

شریف بلوچ کے بقول وہ لوگ میران کے ساتھ میرے دوسرے چھوٹے بھائی کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے تاہم بعد میں چھوٹے بھائی کو چھوڑ دیا مگر تاحال میران کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل رہی ہے۔


انہوں نے کہا کہ مسلح افراد گھر سے موبائل فونز، ٹیلی ویژن اور ایک گاڑی بھی ساتھ لے گئے۔

ملک میران کون ہیں؟

ملک میران بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے عیسی سے ہے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ میران گزشتہ چار برس سے سوشل میڈیا پر فعال تھے۔

وہ سوشل میڈیا پر اپنے علاقے کے مسائل کے ساتھ مختلف واقعات کے بعد ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

دو فروری کو جب پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپ پر حملہ ہوا تو پورے شہر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی تھیں مگر ملک میران اپنے گھر سے پی ٹی سی ایل کا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے وہاں کی صورتِ حال سے آگاہ کرتے رہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان میں دہشت گرد حملے، معاملہ کیا ہے؟

میران بلوچ کی گمشدگی پر انسانی حقوق کمیشن کا ردِ عمل

انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم نوشکی اور پنجگور کے واقعے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری اطلاعات ہیں کہ ان واقعات کے بعد دونوں شہروں میں مبینہ طور پر کرفیو کا سماں رہا جس سے مقامی افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً پنجگور شہر تین سے چار روز تک بند کرایا گیا جس سے شہری خوف کا شکار ہیں۔

طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق پنجگور میں میران بلوچ جو ایک سماجی کارکن ہیں ان کومبینہ طور پر لاپتا کیا گیا ہے جب کہ خضدار سے ایک اور نوجوان حفیظ بلوچ کی بھی جبری گمشدگی کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

اُن کے مطابق "ہم سمجھتے ہیں کہ ان واقعات کے بعد ریاست کی جانب سے سماجی کارکنوں اور عام شہریوں کے خلاف جو ردِعمل آیا ہے یہ بھی قابلَ مذمت ہے۔"

طاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کے خلاف کوئی شکایت ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

اسی بارے میں

بلوچستان میں دہشت گرد حملے، معاملہ کیا ہے؟ براس سے مجید بریگیڈ: پاکستان کی فوج بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے نشانے پرتحریک طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں گھرا پاکستان کیا کرے؟

انتظامیہ کا مؤقف

اس سلسلے میں پنجگور سٹی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا گیا تو تھانے کے ہیڈ محرر نصیب اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں پنجگور سے دو سے تین لوگوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم ابھی تک ان کے لواحقین نے تھانے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی ہے۔

دوسری جانب ملک میران کی مبینہ جبری گمشدگی کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر پنجگور رزاق ساسولی سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر تا حال کوئی جواب نہیں ملا۔

خیال رہے کہ ماضی میں ریاستی ادارے اور حکومت جبری طور پر شہریوں کو لاپتا کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

میران بلوچ کے بھائی محمد شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان کے بھائی کسی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کیس چلائیں لیکن اس طرح اُنہیں اپنوں سے دُور نہ کیا جائے۔