اگر آپ نے پرانی بھارتی فلمیں دیکھی ہیں تو یقینا آپ کو 1971ء میں دیوآنند کی ڈائریکشن میں بنی فلم " ہرے راما ہرے کرشنا" بھی یادہوگی۔ اس دور میں اس فلم نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑھے کہ باقی فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ فلم کی کامیابی نے اس وقت کے ایک نئے چہرے زینت امان کو بھی وہ شہرت بخشی کہ پھر کئی سال تک کوئی دوسری ہیروئن ان کے سامنے آسانی سے قدم نہیں جما سکی۔
زینت امان 90ء کے عشرے تک فلموں میں کام کرتی رہیں مگر پھر اچانک انہوں نے فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا اور گمنامی کی زندگی میں کھوگئیں۔ اب جبکہ اس واقعہ کو 20 سال کاعرصہ گزرچکا ہے ، زینت امان دوبارہ سے فلم انڈسٹری میں 'ان' ہوئی ہیں۔ اتنے لمبے عرصے تک فلموں سے غائب رہنے کے بعد واپسی کا تجربہ کیسا رہا اس کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس عمر میں فلموں میں واپسی کا رخ کیا ہے جس میں عموماً لوگ ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس میں بڑا کمال میرے میک اپ مین، لائٹنگ ڈائریکٹر اور کیمرہ مین کا ہے۔ واپسی کا فیصلہ ناصرف مشکل تھا بلکہ مجھے کئی خدشات بھی تھے۔ ان دنوں میرے پاس کئی اسکرپٹ موجود ہیں ۔ ابھی میں غور کررہی ہوں اور جلد کسی پروجیکٹ پر کام شروع کردوں گی۔
زینت امان کو ہندی فلموں کا پہلا سیکس سمبل تصور کیا جاتا تھا مگر زینت امان اتنے برس گزرجانے کے باوجود آج بھی اس بات سے انکاری ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان پر سیکس سمبل کا لیبل زبردستی لگایا گیا تھا وہ اس ٹائپ کی لڑکی کبھی بھی نہیں رہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مجھے دیو آنند نے فلم ' ہرے راما ہر کرشنا ' کا رول آفر کیا تھا ۔سچ کہوں تو مجھے یہ امید ہی نہیں تھی کہ فلم اس قدر ہٹ ہوجائے گی۔ میرا خیال تھا کہ فلم اوسط بزنس کرے گی اور بس لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ فلم ہٹ ، سپر ہٹ ہوئی ۔ اس فلم میں، میں نے بگڑی ہوئی ہپی لڑکی کا رول ادا کیاتھا۔ اس دور میں امریکن و یورپی ہپی بھارتیوں کے لئے بڑی دلکشی کا باعث تھے۔میں نے فلم کا اسکرپٹ پڑھا تو اچھا لگا اور ہاں کردی ۔
'ہرے راما ہرے کرشنا ' کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مجھے اس دور کا ہر دوسرا پروڈیوسر ایسا ہی رول آفر کرنے لگا ۔ بس مجھ سے یہیں غلطی ہوئی ۔ مجھے یہ رول مزید قبول نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ اگر میں وہ آفر قبول نہ کرتی تو شاید مجھے پر سیکس سمبل کا لیبل کبھی نہ لگتا۔ یہ کردار اس وقت کی کئی مشہور ہیروٴینز کو آفر کیا گیاتھا مگر انہوں نے منع کردیا لیکن میری نظر میں یہ ایک بڑا کردار تھا اور میں اسے پاکر خوش تھی جبکہ بنیادی طور پریہ ایک منفی کردار تھا جس میں ہیروئن نشہ کرتی ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اس فلم کے بعد انڈیا چھوڑنا چاہتی تھی لیکن جب فلم کامیاب ہوئی تو دیو آنند صاحب نے کہا کہ کہیں مت جاؤ۔تمہارا مستقبل یہیں ہے۔انہی دنوں مجھے دو اور اہم فلمیں ملیں۔ " ہیرا پننا" اور" یادوں کی بارات" ۔ یہ دونوں فلمیں بھی سپر ہٹ ہوئیں۔ اس کے بعد بی آر چوپڑہ کی فلم "دھند "ملی۔ ان چاروں فلموں کی کامیابی کے بعد میں خود کو واقعی بڑا اسٹار سمجھنے لگی اور میں نے بھارت جانے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیا۔اب بیس سال گمنامی میں گزارنے کے بعد دوبارہ کام کا ارادہ کیا ہے لیکن پرانی ' شہرت' اب تک ساتھ نہیں چھوڑ رہی۔