عراق کے مختلف شہروں میں پیر کو ہونے والے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 23 ہوگئی ہے جب کہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔
واشنگٹن —
عراق کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 23 ہوگئی ہے جب کہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔
حکام کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے پیر کو کیے جانے والے ان بم دھماکوں کا بظاہر مقصد ملک کی سیکیورٹی فورسز پر عراقی عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنا ہے۔
سب سے ہلاکت خیز دھماکہ دارالحکومت بغداد کے جنوب میں واقع مسیب نامی قصبے میں ہوا جس میں سات لوگ مارے گئے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ علاقے میں کئی مکانات منہدم ہوگئے۔
بغداد کے ضلع کرادا میں ایک کار میں نصب بم پھٹنے سے پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کے مطابق دھماکہ کربلا جانے والے زائرین کے ایک قافلے کے نزدیک ہوا۔
شمالی شہر کرکک میں ہونے والے دھماکے میں چار پولیس اہلکار مارے گئے جب کہ نزدیکی قصبے ظزخورماتو میں بھی بم دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔
عراق کے وسط میں حلّہ نامی قصبے میں ہونے والے بم دھماکے میں دو، جب کہ بغداد کے جنوبی علاقے میں کیے گئے ایک مارٹر حملے میں ایک شیعہ زائر ہلاک ہوگیا۔
ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے بم حملوں میں مزید تین افراد مارے گئے۔
بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات کی اس حالیہ لہر کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں عراق میں بعض سنی انتہا پسند تنظیمیں شیعہ زائرین پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہیں۔
حکام کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے پیر کو کیے جانے والے ان بم دھماکوں کا بظاہر مقصد ملک کی سیکیورٹی فورسز پر عراقی عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنا ہے۔
سب سے ہلاکت خیز دھماکہ دارالحکومت بغداد کے جنوب میں واقع مسیب نامی قصبے میں ہوا جس میں سات لوگ مارے گئے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ علاقے میں کئی مکانات منہدم ہوگئے۔
بغداد کے ضلع کرادا میں ایک کار میں نصب بم پھٹنے سے پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کے مطابق دھماکہ کربلا جانے والے زائرین کے ایک قافلے کے نزدیک ہوا۔
شمالی شہر کرکک میں ہونے والے دھماکے میں چار پولیس اہلکار مارے گئے جب کہ نزدیکی قصبے ظزخورماتو میں بھی بم دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔
عراق کے وسط میں حلّہ نامی قصبے میں ہونے والے بم دھماکے میں دو، جب کہ بغداد کے جنوبی علاقے میں کیے گئے ایک مارٹر حملے میں ایک شیعہ زائر ہلاک ہوگیا۔
ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے بم حملوں میں مزید تین افراد مارے گئے۔
بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات کی اس حالیہ لہر کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں عراق میں بعض سنی انتہا پسند تنظیمیں شیعہ زائرین پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہیں۔