دنیا کی پانچ اہم معیشتوں برازیل، روس، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل بلاک برکس (BRICS) کےبرکس بزنس فورم میں چین کے صدر نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اسوقت، دنیا میں، ہمارے دور میں اور تاریخ میں ایسی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں اور جو انسانی معاشرے کو ایک نازک موڑ پر لے جا رہی ہیں۔تاریخ کا رخ ہمارے انتخاب سے متعین ہو گا۔
برکس (BRICS) میں شامل ملکوں کے رہنماؤں نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو طے کرنے کے لیے منگل کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ملاقات کی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے جنوبی افریقہ کے اپنے ہم منصب سیرل رامافوسا، برازیل کے صدر لوئیس اناچیو لولا دا سلوا اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی کے باوجود اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔
ان کے ریمارکس چینی وزیر تجارت وانگ وینٹاؤ نے پڑھ کر سنائے، اور یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ شی، جنہوں نے دن میں اول وقت میزبان رامافوسا کے ساتھ ملاقات کی تھی، اس میں شرکت کیوں نہیں کی۔
برازیل کے صدر لولا کی تقریر نے بلاک کے اندر نقطہ نظر کے تضاد کی طرف اشارہ کیا، جنہوں نے سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عالمی نظام میں اپنے کردار کے بارے میں ایک مربوط نظریہ متعین کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔
برازیل کے صدر نے منگل کو جوہانسبرگ سے سوشل میڈیا نشریات کے دوران کہا، ہم G7، G20یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مخالف نہیں بننا چاہتے، ہم صرف اپنے آپ کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔
توسیعی سوال کے علاوہ، امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے تجارتی اور مالیاتی لین دین میں رکن ممالک کی مقامی کرنسیوں کے استعمال کو بڑھانا بھی سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بائیس سےچوبیس اگست تک ہونے والے سربراہی اجلاس میں چین کے صدرشی جن پنگ کی شرکت واضح کرتی ہے کہ چین نے گزشتہ ایک دہائی میں اس اتحاد پر کتنی سفارتی سرمایہ کاری کی ہے۔
دوسری طرف یوکرین کی جنگ کے تناظر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امریکہ کے ساتھ بیجنگ کی بڑھتی ہوئی رقابت نے چین اور روس کو، برکس کو مضبوط کرنے کے معاملے میں بہت آگے بڑھا دیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ، برکس اجلاس میں ورچول شرکت کی ہے ۔
کانفرنس کا مرکزی اجلاس بدھ کو ہوگا اور جمعرات کو تیسرے روز بھی ملاقاتیں جاری رہیں گی ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ان اجلاسوں میں دنیا کے جنوب کے ملکوں میں مزید تعاون کی بات کی جائے گی ۔ ایک درجن سے زائد ترقی پذیر ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے ، جس سے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور چین کےرہنماوں کو ایک مناسب تعداد میں سامعین میسر آئیں گے۔
چین اور روس دونوں ہی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ عالمی اداروں پر مغربی غلبےکا مقابلہ کرنے کے لیے اس گروپ بندی کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس گروپ کے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے اس کی ممکنہ توسیع پر ایک اہم بحث سے قبل ان ملکوں کے درمیان تقسیم دوبارہ ابھر کر سامنے آگئی ہے۔
جنوبی افریقہ میں اجلاس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ برکس کرنسی پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جس کا خیال برازیل نے ڈالر پر انحصار کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔
ادھر یہاں واشنگٹن میں منگل کو رپورٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے وہائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ برکس امریکہ کی جیو پولیٹکل حریف بن سکتی ہےانہوں نے کہا کہ یہ مختلف النوع ملکوں کا ایک مجموعہ ہے جن کے اہم مسائل پر نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
جنوبی افریقہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ان بیس ملکوں میں شامل ہے، جو برکس کا حصہ بننے کے لئے باقاعدہ درخواست دے چکے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کی جانب سے ایک ایسے بلاک کا حصہ بننے کا کوئی بھی امکان ، جس میں روس اور چین بھی شامل ہوں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی توجہ ضرور حاصل کرے گا ، جو اس وقت ایک انتہائی سردمہری پر مبنی جیو پولیٹیکل ماحول میں موجود ہے جبکہ بیجنگ کی جانب سے خلیج فارس میں حال ہی میں اپنا اثر بڑھانے کے اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔
سعودی عرب میں بھارت کے سابق سفیر تلمیز احمد کہتے ہیں کہ اگر سعودی عرب 'برکس' کا حصہ بنتا ہے ، تو اس بلاک کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برکس، جس میں پہلے ہی دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کی سب سے بڑی معیشتیں موجود ہیں ، اس میں توسیع کا کوئی اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ، تو یہ روس اور چین کے ان عزائم کی اخلاقی کامیابی سمجھی جائے گی، جس کے تحت وہ جی سیون ملکوں کے مقابلے میں ' برکس' کی صورت میں ایک جوابی بلاک قائم کرنا چاہتے ہیں۔
روس اور چین دونوں ہی اس بلاک میں مزید ملکوں کو شامل کرنے کے حق میں ہیں، چاہے وہ موجودگی صرف علامتی نوعیت کی ہی ہو، خاص طور پر اس وقت جب چین اور امریکہ کے درمیان معاشی معاملات پر اختلافات ہیں اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے روس مغربی ملکوں کے ساتھ سرد جنگ جیسی صورتحال میں ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کی چار معیشتوں پر مبنی 'برکس' کا بلاک سال دو ہزار نو میں قائم ہوا تھا، جس میں اگلے سال جنوبی افریقہ بھی شامل ہو گیا۔
(اس رپورٹ کے لئے مواد رائٹرز اور اے پی سے لیا گیا ہے)