چین کی میزبانی میں روس، بھارت، جنوبی افریقہ، برازیل اور چین پر مشتمل گروپ 'برکس' کا ورچوئل اجلاس جمعرات کو ہو رہا ہے جسے یوکرین جنگ اور علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
رواں سال کے لیے چین گروپ کا سربراہ ہے، اس لیے چینی صدر شی جن پنگ اس کی صدارت کر رہے ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے اور چین کی ماسکو کی مکمل حمایت کے بعد جیو پولیٹیکل نظام میں اتھل پتھل کے درمیان اس اجلاس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یہ مسلسل تیسرا اجلاس ہے جو ورچوئل ہو رہا ہے۔
یہ گروپ اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہے کیوں کہ اس میں شامل پانچوں ملک دنیا کی 41 فی صد آبادی، 24 فی صد عالمی جی ڈی پی اور 16 فی صد عالمی تجارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
بھارت کے وزِیر اعظم نریندر مودی سمیت روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، چین کے صدر شی جن پنگ، جنوبی افریقہ کے صدر سرل راما فوسا اور برازیل کے صدر جائیر بولسونارو اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی، تجارت، صحت، روایتی ادویات، ماحولیات، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت اور تیکنیکی و پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت جیسے شعبوں میں برکس ممالک کے درمیان تعاون تیز کرنے پر تبادلۂ خیال کی توقع ہے۔
مشرقی لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع اور کشیدگی کے تناظر میں اجلاس میں مودی اور شی جن پنگ کی شمولیت پر سب کی نظریں ہیں۔ چین میں بھارت کے سفیر پردیپ کمار راوت نے بدھ کو بیجنگ میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔ وانگ یی نے مارچ میں بھارت کا دورہ کیا تھا اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے تبادلۂ خیال کیا تھا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان سے ہٹ کر اجلاس کے انعقاد کو روس یوکرین جنگ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جہاں گروپ کے ایک رکن چین نے روس کی مکمل حمایت کی ہے، وہیں چین کے علاوہ بھارت اور جنوبی افریقہ نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اجلاس سے ایک روز قبل شی جن پنگ نے برکس بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے روس یوکرین جنگ کے تناظر میں دوسرے ممالک کی سلامتی کی قیمت پر اپنی سلامتی کے لیے فوجی اتحاد میں توسیع کے خلاف خبردار کیا تھا۔انہوں نے روس پر امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ یہ پابندی دو دھاری تلوار ہے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے ولادیمیر پوٹن کو بذریعہ فون ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کی حمایت کا یقین دلایا تھا جس پر امریکہ نے بیجنگ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں نہ رہے۔
روس پر امریکہ اور مغرب کی پابندیوں کے باوجود چین اور بھارت نے روس سے خام تیل کی درآمد بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے روس کو پابندیوں سے ہونے والے خسارے کے ازالے کا موقع مل گیا ہے۔
بھارت نے رواں سال مارچ سے مئی کے دوران گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ تیل درآمد کیا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اس کی مخالفت پر بھارت کا کہنا تھا کہ یورپ روس سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ تیل درآمد کر رہا ہے۔
ولایمیر پوٹن نے بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی وجوہات کے باعث روس پر پابندی لگائی گئی، جس کی وجہ سے عالمی اقتصادی چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے سپلائی چین ٹوٹ رہی ہے، عالمی سطح پر تجارتی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تمام ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین تنازع نے برکس کے ایجنڈے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ توقع ہے کہ اجلاس کے دوران مذکورہ تنازع اور گروپ کے مستقبل کا موضوع چھایا رہے گا۔
تجزیہ کار اوماکانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اجلاس کے دوران نئی جیو پولیٹیکل سچائیوں کے پیشِ نظر نیا بیانیہ تیار ہوتا ہے۔ان کے مطابق اجلاس کے دوران اس پر غور ہو سکتا ہے کہ کیا امریکہ کی قیادت والے معاشی اداروں پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک نیا متوازی اقتصادی بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا برکس میں مزید ممالک کو شامل کرنے کی کوئی تجویز رکھی جا سکتی ہے۔
مئی میں منعقد ہونے والے برکس وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس میں چین نے ابھرتی ہوئی مزید معیشتوں کو گروپ میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ بات ایجنڈے میں شامل ہے یا نہیں۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جب 2009 میں اس گروپ کا قیام عمل میں آیا تھا تو عالمی معیشت کو نئی شکل دینے اور ترقی پذیر دنیا کی مدد کے لیے نئے مالیاتی نظام کی توقع تھی لیکن اپنے قیام کے بعد سے لے کر اب تک یہ گروپ حقیقی توقعات پر پورا نہیں اترا۔
انڈیا چائنا اکنامک اینڈ کلچرل کونسل کے سیکریٹری جنرل محمد ثاقب روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ مستقبل میں برکس کی کوششوں کی کامیابی کے لیے بھارت اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون کی بڑی اہمیت ہے۔
ان کے مطابق سرحدی تنازع نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا کی ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں اس کی توقع کم ہے کہ بھارت مغرب مخالف مؤقف اختیار کرے گا۔ حالاں کہ چین کے برعکس بھارت نہ تو سلامتی کونسل کا رکن ہے اور نہ ہی مغرب کے ساتھ اس کا کوئی بہت گہرا تعلق ہے۔
ان کے خیال میں اس کا امکان ہے کہ وہ برکس میں مزید فعال کردار ادا کرے۔ اب تک اس نے مختلف امور میں ہلکا پھلکا مؤقف اختیار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں طاقتوں یعنی بھارت اور چین کو عالمی اصلاحات کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ برکس نے امریکہ کے زیرِ قیادت موجودہ نظام کے قابل عمل عالمی متبادل نظام شروع کرنے کے لیے اپنی دیرینہ کوششوں کو حقیقتاً آگے نہیں بڑھایا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برکس اجتماعی معاشی طاقت ہے اور اسے خارج از بحث نہیں کیا جا سکتا۔
اوما کانت لکھیڑہ کہتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ برکس اجلاس میں روس یوکرین جنگ پر گفتگو ہو گی۔ حالاں کہ یہ ایک اقتصادی فورم ہے تاہم جب پانچوں عالمی رہنما ایک دوسرے سے گفتگو کریں گے تو یوکرین بحران پر بہرحال تبادلۂ خیال ہوگا۔
ایسا سمجھا جاتا ہے کہ روس اور چین مغرب کے خلاف سخت مؤقف اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن توقع ہے کہ بھارت اپنے غیر جانب دارانہ مؤقف کے پیش نظر چاہے گا کہ امریکہ اور مغرب پر سخت نکتہ چینی نہ کی جائے۔