برطانوی حکام جعلی شادیوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ یورپی یونین کے کسی ملک کا شہری، یورپی یونین کے باہر کے کسی فرد سے کاغذی شادی کر لیتا ہے تا کہ اس شخص کے برطانیہ میں رہنے کا جواز پیدا ہو جائے۔ حال ہی میں، جنوبی انگلینڈ کے ایک پادری کو اس قسم کی 360 سے زیادہ جعلی شادیوں کا مجرم پایا گیا۔
Sam Bullimore برطانیہ کی بارڈر ایجنسی میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہمارے علم میں ایسے بہت سے کیس آئے ہیں کہ مغربی افریقہ کے کسی علاقے کا رہنے والا کوئی شخص، یورپ یونین کے کسی شہری سے شادی کر لیتا ہے، وہ چاہے ڈچ ہو، فرانسیسی ہو یا ہسپانوی ، اور اس طرح اسے پورے حقوق مل جاتے ہیں۔ یورپی یونین کے شہری سے شادی کرنے میں ان کا یہ مفاد وابستہ ہوتا ہے’’ ۔
Bullimore کہتے ہیں کہ یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ جعلی شادیوں کا انتظام کرنے والے لوگ ہر کاغذی شادی کے عوض دس ہزار ڈالر سے زیادہ پیسے بنا لیتے ہیں۔ جب پادری Tim Codling کے پاس شادی کی رسم ادا کرنے کی بے شمار درخواستیں آنی شروع ہوئیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع کر دی اور پولیس کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ شادی کی ایک رسم کے دوران، انھوں نے شادی کے ایجاب و قبول کے بجائے، ریلوے اسٹیشنوں کے نام دہرانا شروع کر دیے اور دلہن نے جو ظاہر ہے کہ انگریزی نہیں جانتی تھی، وہی الفاظ دہرا دیے۔ Codling کہتے ہیں کہ ملک میں متوازی قانونی نظام موجود ہو تو پھر چرچ آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ‘‘چرچ آف انگلینڈ زیادہ پُر کشش ہے کیوں کہ چرچ کی شادی میں وہ تمام چیزیں چیک نہیں کی جاتیں جو اس صورت میں چیک کی جاتیں اگر آپ سیکولر نظام کے تحت شادی کی درخواست دیتے’’۔
Bullimore کہتے ہیں کہ دھوکہ دہی پر مبنی ایک اور طریقہ جو تارکین وطن استعمال کر رہےہیں وہ جعلی کالج ہیں، جو اسٹوڈنٹ ویزا اسپانسر کرتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ‘‘ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ نئے کالج کھل رہے ہیں جن میں بظاہر پانچ ہزار طالب علموں کی گنجائش بتائی جاتی ہے یا ان میں پانچ ہزار طالب علم داخلے کی درخواستیں دے رہے ہیں۔ پھر جب ان کالجوں کو جا کر دیکھا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں صرف 200 طالب علموں کے لیے جگہ ہے’’۔
وزیرِ اعظم David Cameron کی حکومت یورپی یونین کے باہر کے ملکوں سے آنے والے تارکینِ وطن کی تعداد کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے برطانیہ آنے والے تارکین وطن کی سالانہ حد مقرر کر دی ہے جو 24 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ فی الحال عبوری قانون ہے لیکن توقع ہے کہ اگلے اپریل میں یہ مستقل ہو جائے گا۔
Migration Watch نامی ریسرچ گروپ کے Alp Mehmet حکومت کی طرف سے مقرر کردہ حد کے حامی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ باہر سے آنے والوں کی تعداد قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہم چاہتے ہیں کہ تارکین وطن اتنی تعداد میں آئیں جسے قائم رکھا جا سکے۔ یعنی ان کی تعداد اتنی ہو کہ وہ آبادی میں گُھل مل جائیں، معاشرے کا جزو بن جائیں ، بجائے اس کے کہ وہ خود کو علیحدہ گروپوں کی شکل میں باقی رکھیں’’۔
تارکین وطن کو برطانیہ میں قبول کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دارالحکومت کے بہت سے نواحی علاقوں، مثلاً Brixton, South London میں آپ کو کریبین کے علاقے کے بہت سے لوگ گھومتے پھرتے نظر آئیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 1940 ء کی دہائی میں یہاں آئے تھے۔ آج کل ہر سال برطانیہ میں ایک لاکھ 76 ہزار تارکینِ وطن آتے ہیں۔ نئے وزیرِ اعظم اس تعداد کو کم کرنا چاہتے ہیں، لیکن انھوں نے کاروباری اداروں کویہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ ہنر مند تارکین وطن کو لینے کے لیے اس تعداد میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں تا کہ برطانیہ میں کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں۔