برطانیہ کی جانب سے ایک پاکستانی مذہبی رہنما سمیت 30 افراد اور اداروں پر ملک میں داخلے اور برطانوی بینکوں سے لین دین پر پابندی عائد کی گئی ہے جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس سے منسلک دیگرجرائم میں ملوث ہونے کے مبینہ الزامات ہیں۔ فہرست میں ایک پاکستانی کا نام آنے سے پاکستان ان گیارہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جس کے شہریوں پر برطانیہ نے سفری اور مالی پابندیاں عائد کیں ہیں۔
اس فہرست میں شامل ہونے والے پاکستانی مذہبی رہنما میاں عبدالحق ہیں جنہیں میاں مٹھو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ صوبہ سندھ کے شمالی ضلع گھوٹکی کی ایک مشہور مذہبی درگاہ کے متولی ہیں۔
میاں عبدالحق مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈہرکی کی ٹاون کمیٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے۔ جس کے بعد وہ دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پہلی بار سال 1988 میں میاں مٹھو پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر53 ہزار 646 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اور سال 2008 میں پیپلز پارٹی نے انہیں دوبارہ ٹکٹ دیا اور وہ منتخب ہوکر اسمبلی پہنچ گئے۔
میاں مٹھو نے بعد ازاں پیپلز پارٹی سے راہیں الگ کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی بھی کوششیں کیں اور اس دوران ان کی سابق وزیر اعظم عمران خان سے ایک ملاقات سے بھی ہوئی۔ لیکن پارٹی میں شمولیت کی جب بات آئی تو پارٹی کے اندر سے بہت سے لوگوں نےاعتراض کیا اور وہ تحریک انصاف میں شامل نہیں ہو سکے۔ تاہم اس کے باوجود بھی علاقے میں ان کے اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے پہلے سال 2012 میں میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کا نام اس وقت خبروں میں آنے لگا جب میرپور ماتھیلو سے مبینہ اغواء کے بعد مذہب تبدیل کرنے والی رنکل کماری کا کیس سامنے آیا۔ تاہم رنکل نے زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
تاہم یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہندو مت کے پیروکاروں کی جانب سے ایسی شکایات آتی رہیں جن میں میاں مٹھو اور ان کے بیٹوں پر پیسوں کے عوض انتہائی غریب گھرانوں کی کم عمر لڑکیوں کو مذہب تبدیل کر کے مسلمان بنانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔
SEE ALSO: سندھ میں 'جبری' تبدیلی مذہب اور شادی کے ذمہ داروں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہسال 2019 میں ڈہرکی کی دو ہندو بہنوں رینا اور روینا کے اہل خانہ کے مطابق انہیں مبینہ طور پر اغواء کرکے تبدیلی مذہب پر مجبور کیا گیا اور پھر ان کی شادی مسلمان لڑکوں سے کردی گئی۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب یہ کیس چلا تو دونوں لڑکیوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ انہوں نے یہ قدم اپنی مرضی سے اٹھایا ہے اور ان پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔
تاہم اس کے برعکس انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کی جانب سے میاں مٹھو پر یہ الزامات تواتر کے ساتھ عائد کیے جاتے رہے۔ اور انہیں شمالی سندھ میں ایسے درجنوں واقعات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا لیکن انہیں کسی بھی ایسے مقدمے میں کبھی نامزد کیا گیا اور نہ ہی کوئی سزا مل سکی۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سابق شریک چیئر پرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے میاں عبدالحق مٹھو کا نام پابندی والی فہرست میں شامل کیا جانا ریاست اور خود سیاستدانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور خاص طور پر جب ایسی خلاف ورزیاں اقلیتوں کے ساتھ کی جارہی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب کے خلاف آواز اٹھانے اور قانون سازی کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنے فوائد کے لیے میاں مٹھو اور ان جیسے کئی دیگر افراد کو اپنی جماعت کا حصہ بناتی رہیں لیکن اس اہم مسئلے کا شکار ہونے والے غریب ہندو خاندانوں کو کوئی مدد نہ ملی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2021 میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں کم از کم 27 مبینہ جبری مذہبی تبدیلیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں سے سات نابالغ افراد بھی تھے۔ جب کہ پنجاب میں بھی جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا جہاں یہ تعداد ایک سال میں 36 ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ سال میں 13 تھی۔ جب کہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی میں بھی ایسا ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔
ادھر میاں عبدالحق نےخود پر تبدیلی مذہب کے لیے جبر کرنے کے لگائے گئے الزمات کو رد کرتے ہوئے انہیں من گھڑت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات پر اگر معافی نہ مانگی گئی تو وہ ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے میاں عبدالحق کا کہنا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب سے متعلق کوئی ایک بھی مثال ثبوت کے ساتھ پیش کردی جائے تو وہ اس کا جواب دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ملک جو اپنے نظام انصاف پر ناز کرتا ہے، اس کی حکومت بغیر کسی ثبوت کے ایک شخص پر الزام عائد کررہی ہے کہ وہ جبری تبدیلی مذہب میں ملوث ہے، جب کہ دوسری جانب اس رپورٹ کی اشاعت سے پہلے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی گئی کہ ان الزامات پر ہم کیا رائے رکھتے ہیں۔
میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کا مزید کہنا تھا کہ بھرچونڈی شریف درگاہ میں ان کے ہاتھوں مسلمان ہونے والے ہندو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی جاتی، کیونکہ اسلام میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں اور کسی کو زبردستی مسلمان بنانے سے تو پیغمبر اسلام نے بھی منع کیا ہے۔
SEE ALSO: دینا کماری کیس:'ہم بھی پشتون روایات کا خیال رکھتے ہیں'دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک ملک میں اس حوالے سے وفاقی یا صوبائی سطح پر کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی متعدد شکایات کے باوجود بھی حکومت اس مسئلے سے انکار کرتی آئی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے وفاقی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسمبلی میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے عمر کی حد مقرر کرنا غیر اسلامی اور غیر آئینی عمل ہے اور اس بارے میں ایوان میں پیش کیے گئے ایک بل کو ملک کے ایک آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مسترد کردیا تھا۔
جبری تبدیلی سے متعلق سب سے زیادہ شکایات ماضی میں سندھ میں سامنے آتی رہی ہیں لیکن یہاں بھی مذہبی رہنماؤں کی وجہ سے اب تک قانون سازی کی کوششیں کامیاب نہیں ہوپائی ہیں۔ تاہم گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سندھ حکومت جبری مذہب تبدیلی کے خلاف قانون پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے گی۔ وزیراعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ اس معاملے پر بات چیت اور غور و فکر کے ذریعے اتفاق رائے حاصل کیا جائے گا، تاکہ تمام اقلیتوں کے حقوق کا ہر طرح سے تحفظ ممکن بنایا جاسکے۔