لندن میں قانون سازوں کی طرف سے داعش کے خلاف توسیعی حکمت عملی کی توثیق کے بعد برطانوی طیاروں نے شام میں فضائی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
برطانوی دفاعی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جمعرات کو بتایا کہ رائل ائیر فورس کے ٹورنیڈو طیاروں نے قبرص میں برطانوی فضائی اڈوں سے پروازیں کر کے شام میں اپنے اہداف پر بمباری کی اور بحفاظت بیس پر واپس پہنچ گئے۔
حکام نے بمباری کے اہداف یا ان کے مؤثر ہونے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔
دس گھنٹوں تک جاری رہنے والی بحث کے بعد برطانوی قانون سازوں نے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے شام میں داعش کے خلاف بمباری میں حصہ لینے کی درخواست کو 223 کے مقابلے میں 397 ووٹوں سے منظور کر لیا۔
وزیراعظم کیمرون نے پارلیمان میں اپنے منصوبے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فضائی کارروائیاں اس شدت پسند تحریک پر قابو پانے کی ’’وسیع تر حکمت عملی‘‘ کا حصہ ہے۔
برطانیہ ایک سال سے زائد عرصہ سے عراق میں بمباری کر رہا ہے۔ کیمرون نے قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کی بھی حمایت کریں، جو ان کے بقول مغرب پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
صدر براک اوباما نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ داعش ’’ایک عالمی خطرہ ہے جسے عالمی حکمت عملی کے ذریعے شکست دی جانی چاہیئے۔‘‘
امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے بھی بدھ کو دیرے گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں شام میں فضائی کارروائیوں کا دائرہ بڑھانے کے برطانوی فیصلے کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ’’ہمارے اتحاد کی طاقت اور برطانیہ اور امریکہ کے خصوصی تعلقات کی اہمیت کا ایک اور ثبوت ہے۔‘‘
کارٹر نے فضائی اتحاد کی معاونت پر جرمنی کی تعریف بھی کی۔ جمعے کو جرمن پارلیمان میں فضائی مہم کے لیے مزید 1,200 فوجی بھیجنے پر رائے شماری کی جائے گی۔
وزیراعظم کیمرون طویل عرصہ سے داعش کے خلاف فضائی اتحاد میں برطانیہ کے کردار میں توسیع کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس اقدام کے لیے عوام کی حمایت ان خدشات کے باعث متزلزل رہی کہ بمباری غیر مؤثر ہو گی اور طویل المدتی فوجی مہم جوئی کا باعث بنے گی۔
برطانیہ میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے کہا کہ کیمرون ’’کسی کو بھی قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘ کہ اگر برطانیہ فضائی اتحاد کی کارروائیوں میں شامل ہو کر کسی طرح شدت پسندوں پر غلبہ پانے میں اتحاد کو کامیابی دلوانے میں کامیاب ہو جائے تو زمینی افواج داعش کے قبضے میں علاقے چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
ایک آن لائن تحقیقی فرم کی جانب سے جاری کیے گئے جائزے کے مطابق شام میں فوجی کارروائی کے لیے برطانوی شہریوں کی حمایت میں ستمبر 2014 کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ منگل کو جائزے میں شامل صرف 48 فیصد افراد نے فضائی کارروائیوں کی حمایت کی جبکہ گزشتہ ہفتے 59 فیصد افراد نے ان کی حمایت کی تھی۔