مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے یورپی رہنماؤں کی کوششیں جاری ہیں۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمان سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی حکومت کو شام میں داعش کےٹھکانوں پر فضائی حملوں کی اجازت دے۔
جمعرات کو لندن میں پارلیمان کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ شام میں داعش پر حملے برطانیہ کی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ شام میں داعش کے ٹھکانوں پر جاری بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں میں برطانیہ کو فوراً شریک ہونا چاہیے کیوں کہ برطانیہ کے لیے اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار کرنا غلط ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ شام میں داعش کو جتنا پنپنے کی مہلت دی جائے گی وہ دنیا کے امن کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ بنے گی۔
وزیرِاعظم کیمرون نے ارکانِ پارلیمان کو بتایا کہ امریکی صدر براک اوباما اور فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے شام میں جاری اتحادی فوج کی فضائی کارروائیوں میں برطانیہ کی شرکت پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ملک برطانیہ کے قریب ترین اتحادی ہیں اور انہیں اس وقت برطانیہ کی مدد کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے جنگی طیارے اس وقت عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر جاری اتحاد کے فضائی حملوں میں شریک ہیں لیکن 2013ء میں برطانوی پارلیمان کی جانب سے شام میں فضائی حملوں کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے وہ شام میں کارروائی نہیں کرسکتے۔
جمعرات کو اپنے خطاب میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ وہ صرف اسی صورت میں برطانوی فوج کو شام میں فضائی حملوں کی اجازت دلانے کا معاملہ پارلیمان میں لائیں گے جب انہیں رائے شماری میں اپنی کامیابی کا یقین ہوگا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ خود حکمران جماعت 'کنزرویٹو' کے کئی ارکانِ پارلیمان بھی شام میں برطانوی افواج کی فضائی کارروائیوں کے مخالف ہیں جس کے باعث کیمرون حکومت اس معاملے پر مشکل میں گھری ہوئی ہے۔
دریں اثنا فرانس کے صدر فرانسس اولاں اٹلی کا دورہ مکمل کرنے کے بعد روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گئے ہیں جہاں وہ روسی قیادت کو داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیوں کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
فرانسیسی صدر پیرس حملوں کے بعد اتحادی ملکوں کے دورے پر ہیں جس کا مقصد داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کو مزید موثر بنانا اوراس کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔
روس بین الاقوامی اتحاد سے ہٹ کر شام میں فضائی حملے کر رہا ہے جن کا مقصد اپنے اتحادی صدر بشار الاسد کی حکومت کو مضبوط بنانا اور ان کےمخالف باغیوں کو کمزور کرنا ہے۔
ماسکو آمد سے دو روز قبل صدر اولاں نے واشنگٹن میں صدر براک اوباما سے ملاقات کی تھی جہاں دونوں رہنماؤں نے داعش کےٹھکانوں پر حملے تیز کرنے اور انٹیلی جنس کا تبادلہ بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔
ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ اگر روس داعش کے خلاف کارروائیوں میں مغربی ملکوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہوجائے تو اس سے شدت پسندوں کےخلاف کارروائی میں مدد ملے گی۔