برطانوی پارلیمان میں حکومت کو شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی اجازت دینے کے معاملے پر بدھ کو ووٹنگ ہورہی ہے۔
وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے پارلیمان سے برطانوی فضائیہ کو شام میں بین الاقوامی اتحاد کی فضائی کارروائیوں میں شرکت کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی جس پر پارلیمان نے بدھ کو بحث کا آغاز کیا۔
امکان ہے کہ بحث 10 گھنٹے تک جاری رہے گی جس کے بعد لندن کے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی شب اس قرارداد پر رائے شماری متوقع ہے۔
بدھ کو بحث کے آغاز پر وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی ایک بار پھر پارلیمان سے خطاب کیا جس میں انہوں نے ارکان پر زور دیا کہ وہ حکومت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اسے شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دیں۔
برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا کہ شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شدت پسند تنظیم کے خلاف بنائی جانے والی "کثیر الجہتی" حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت 'لیبر' کے سربراہ جرمی کوربِن حکومت کی درخواست کی سخت مخالفت کر رہے ہیں جس پر ڈیوڈ کیمرون انہیں اور ان کے حامیوں کو "دہشت گردوں کا حامی ٹولہ" قرار دے چکے ہیں۔
لیکن کوربِن کی سخت مخالفت کے باوجود 'لیبر' پارٹی نے اپنے ارکانِ پارلیمان کو قرارداد پر اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی اجازت دیدی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ قراردادمنظور کرلی جائے گی۔
بدھ کو برطانوی روزنامے 'دی گارڈین' میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں جناب کوربِن نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون یہ واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ داعش کے خلاف برطانوی فضائی حملوں کا دائرہ کار شام تک بڑھانا کیوں ضروری ہے۔
برطانوی ایئرفورس عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بین الاقوامی اتحاد کی بمباری میں شریک ہے لیکن پارلیمان کی جانب سے مارچ میں مسترد کی جانے والی اسی نوعیت کی ایک قرارداد کے باعث وہ شام میں فضائی کارروائیوں میں حصہ نہیں لے سکتی۔
گزشتہ ماہ پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا تھا کہ وہ برطانوی فضائیہ کو شام میں بھی داعش کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دلانے کے لیے دوبارہ پارلیمان سے رجوع کریں گے۔
بدھ کو اپنے مضمون میں 'لیبر' پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے لکھا ہے کہ امریکہ، فرانس، روس اور دیگر عالمی طاقتیں پہلے ہی شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہی ہیں تو اس مہم میں برطانیہ کے حصہ لینے یا نہ لینے سے کیا فرق پڑے گا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ برطانوی وزیرِاعظم یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ اگر برطانوی فضائی حملوں کےنتیجے میں شدت پسندوں کو نقصان پہنچا تو زمین پر موجود فوجی دستے [باغی] داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں کا کنٹرول سنبھال سکیں گے۔
ایک آن لائن ادارے کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق برطانوی شہریوں میں شام میں برطانوی کارروائیوں کی حمایت ستمبر 2014ء کے بعد سے کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور صرف 48 فی صد افراد ان حملوں کے حق میں ہیں۔