برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان وزیر سعیدہ وارثی نے کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام کے خلاف تعصب کا رویہ سماجی طور پر قابلِ قبول بن چکا ہے جس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نےجمعرات کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف حقارت آمیز رویہ اور کٹرپن برطانوی معاشرے کا جزو بن چکاہے جس کا شراب خانوں اور رات کے کھانے کی دعوتوں میں کھلم کھلا اظہارہورہا ہے۔
وارثی، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیر بے محکمہ اور پارلیمان کے ایوان بالا کی رُکن ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات مرکزی انگلینڈ کی یونیورسٹی آف لیکاسٹر میں اِسی موضوع پر خطاب سے قبل کہی۔
اُنھوں نے ابلاغ عامہ پر الزام عائد کیا کہ وہ مسلمانوں پرمعتدل یا انتہا پسندکا ٹھپہ لگاتا ہے اوراکثرو بیشتر برطانیہ کی 20لاکھ کی مسلمان آبادی کے خلاف حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
وارثی نے کہا کہ حکومت، مذہبی راہنماؤں اور معاشرے کو مسلمانوں کے خلاف اپنے تصورات کو تبدیل کرنا ہوگا۔
قدامت پسند تبصرہ نگار نارمن تبت نے وارثی کے خیالات پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ اُن کے بقول اُنھیں چاہیئے کہ وہ گرجا گھروں میں مسلمانوں اور مساجد میں غیر مسلموں کے بارے میں کیے جانے والے اظہارِ رائے سے موازنہ کریں، قبل اِس بات کے کہ یہ فیصلہ صادر کیا جائے کہ اُن کے بقول تعصب سے متعلق ناصحانہ واعظ کی کس کو زیادہ ضرورت ہے۔