امدادی کارکن، کارن ویل کے بقول، اُن کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ وہاں پر اسکول تعمیر کریں گے جہاں کی مقامی برادری پُرعزم ہو، اور وہ جو اسکول کے لیے زمین اور مزدور فراہم کرے
واشنگٹن —
برما دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے، اور اقوام متحدہ کے مطابق، وہاں کی سالانہ فی کس آمدنی تقریبا 460ڈالر سالانہ ہے۔
پچھلے 25سے زائد برسوں تک فوج نے اقتدار سنبھالا ہوا تھا، جس کے باعث برما پر سخت قسم کی بین الاقوامی تعزیرات لاگو رہی ہیں۔ ایسے وقت جب ایک نئی حکومت اختیارات حاصل کر رہی ہے، بین الاقوامی امداد آنا شروع ہوگئی ہے۔
لیکن، دور افتادہ دیہات میں تعلیم کے لیے بہت ہی کم رقوم مختص کی گئی ہیں۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں امداد کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن اُن پر دھیان کم ہی ہے۔
جان سلوزر کی رپورٹ کے مطابق، یہی وہ خطہ ہے جہاں ’بوب کارن ویل‘ اور ’بلڈ اے اسکول اِن برما‘ کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔
تین برس قبل، بوب کارن ویل متعدد غیر ملکی حکومتوں کے لیے مالی مشیر کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے، اور اُن کی مالی مشاورت کا ادارہ مالی طور پر خوش حال تھا۔
کارن ویل کہتے ہیں کہ اُن کا ادارہ نظرانداز ہونے والے بچوں پر توجہ مرکوز کرنے کا خواہاں ہے، جو بصورتِ دیگر، تعلیم سے محروم رہ جائیں گے، اور جو بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اُن کا اپنی زندگی میں کئی طرح کی ذاتی آفات سے سابقہ پڑتا ہے۔
کارن ویل 2010ء میں اُس وقت اِن بچوں سے ملے، جب وہ اور اُن کے دوست برما کے شمال مغربی پہاڑی صوبے میں ایک سے دوسرے دیہی علاقے کی طرف گئے۔
کیلی فورنیا میں رہنے والے، کارن ویل کو پتا چلا کہ امریکی معیار کے لحاظ سے برما میں ایک پرائمری اسکول تعمیر کرانے پر 15سے 20ہزار ڈالر لاگت آتی ہے، جو مقابلاً بہت ہی کم ہے۔
اُنھوں نے اپنے ادارے سے25برس کے تعلق کے بدلے اپنے حصے کی رقوم لیں، اور برما واپس آگئے، جہاں وہ ضرورتمند دیہات کی تلاش میں تھے۔ اُن کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ وہاں پر اسکول تعمیر کریں گے جہاں کی مقامی برادری پُر عزم ہو، اور وہ اسکول کے لیے زمین اور مزدور فراہم کرے ۔
اُن کے رضاکاروں میں سے ایک مقامی موسیقار، رِک ہائزمین ہیں، جو برما کی میوزک کو سرکردہ ماہر مانے جاتے ہیں۔
اُن کے بقول، 80کی دہائی میں جب وہ برما گئے، تو اُنھیں یہ احساس ہوگیا کہ یہی جگہ ہے جہاں کام کی ضرورت ہے۔
ہائزمین پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے سے برما میں انسانی ہمدردی اور تعلیم کے شعبوں میں پراجیکٹ چلا رہے ہیں۔
پچھلے 25سے زائد برسوں تک فوج نے اقتدار سنبھالا ہوا تھا، جس کے باعث برما پر سخت قسم کی بین الاقوامی تعزیرات لاگو رہی ہیں۔ ایسے وقت جب ایک نئی حکومت اختیارات حاصل کر رہی ہے، بین الاقوامی امداد آنا شروع ہوگئی ہے۔
لیکن، دور افتادہ دیہات میں تعلیم کے لیے بہت ہی کم رقوم مختص کی گئی ہیں۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں امداد کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن اُن پر دھیان کم ہی ہے۔
جان سلوزر کی رپورٹ کے مطابق، یہی وہ خطہ ہے جہاں ’بوب کارن ویل‘ اور ’بلڈ اے اسکول اِن برما‘ کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں۔
تین برس قبل، بوب کارن ویل متعدد غیر ملکی حکومتوں کے لیے مالی مشیر کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے، اور اُن کی مالی مشاورت کا ادارہ مالی طور پر خوش حال تھا۔
کارن ویل کہتے ہیں کہ اُن کا ادارہ نظرانداز ہونے والے بچوں پر توجہ مرکوز کرنے کا خواہاں ہے، جو بصورتِ دیگر، تعلیم سے محروم رہ جائیں گے، اور جو بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اُن کا اپنی زندگی میں کئی طرح کی ذاتی آفات سے سابقہ پڑتا ہے۔
کارن ویل 2010ء میں اُس وقت اِن بچوں سے ملے، جب وہ اور اُن کے دوست برما کے شمال مغربی پہاڑی صوبے میں ایک سے دوسرے دیہی علاقے کی طرف گئے۔
کیلی فورنیا میں رہنے والے، کارن ویل کو پتا چلا کہ امریکی معیار کے لحاظ سے برما میں ایک پرائمری اسکول تعمیر کرانے پر 15سے 20ہزار ڈالر لاگت آتی ہے، جو مقابلاً بہت ہی کم ہے۔
اُنھوں نے اپنے ادارے سے25برس کے تعلق کے بدلے اپنے حصے کی رقوم لیں، اور برما واپس آگئے، جہاں وہ ضرورتمند دیہات کی تلاش میں تھے۔ اُن کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ وہاں پر اسکول تعمیر کریں گے جہاں کی مقامی برادری پُر عزم ہو، اور وہ اسکول کے لیے زمین اور مزدور فراہم کرے ۔
اُن کے رضاکاروں میں سے ایک مقامی موسیقار، رِک ہائزمین ہیں، جو برما کی میوزک کو سرکردہ ماہر مانے جاتے ہیں۔
اُن کے بقول، 80کی دہائی میں جب وہ برما گئے، تو اُنھیں یہ احساس ہوگیا کہ یہی جگہ ہے جہاں کام کی ضرورت ہے۔
ہائزمین پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے سے برما میں انسانی ہمدردی اور تعلیم کے شعبوں میں پراجیکٹ چلا رہے ہیں۔