بھارتی سپریم کورٹ کا 'بلڈوزر جسٹس' کے خلاف فیصلہ؛'انتظامیہ جج نہیں بن سکتی'

  • سر پر چھت دستور کی دفعہ 21 کے تحت بنیادی حق ہے: سپریم کورٹ
  • کسی کے گھر یا دکان کو محض اس لیے مسمار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی معاملے میں ملزم یا مجرم ہے: عدالت
  • بھارت میں حالیہ برسوں میں لوگوں کے مکانات اور دکانیں مبینہ ناجائز قبضہ کی بنیاد پر منہدم کی گئی ہیں۔ اس انہدامی کارروائی کو بلڈوزر جسٹس کا نام دیا گیا۔
  • اُن عمارتوں کو مسمار کیا جاتا ہے جو ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہیں: حکومت
  • عدالت کے مطابق سنگین جرائم کے ملزموں اور مجرموں کے خلاف بھی ضابطے کی پابندی کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بدھ کو مبینہ بلڈوزر جسٹس کے خلاف سخت فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔

عدالت نے کہا ہے کہ سر پر چھت دستور کی دفعہ 21 کے تحت بنیادی حق ہے اور کسی کے گھر یا دکان کو محض اس لیے مسمار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی معاملے میں ملزم یا مجرم ہے۔

جسٹس بی آر گوَئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل بینچ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی رٹ پٹیشن پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ ان دونوں افراد کے مکان مسمار کردیے گئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن فار سول رائٹس' (اے پی سی آر) نے اسی معاملے میں مدھیہ پردیش کے شہر جاورا سے تعلق رکھنے والے محمد حسنین اور راجستھان کے شہر ادے پور کے راشد خان کی جانب سے انٹروینشن رٹ پٹیشن داخل کی تھی۔ عدالت نے اس پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔

حالیہ برسوں میں متعدد ریاستوں میں لوگوں کے مکانات اور دکانیں مبینہ ناجائز قبضہ کی بنیاد پر منہدم کی گئی ہیں۔ اس کا آغاز اُتر پردیش سے ہوا تھا۔ اس انہدامی کارروائی کو ’بلڈوزر جسٹس‘ بھی کہا جاتا ہے۔

حکومت اور انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اُن عمارتوں کو مسمار کیا جاتا ہے جو ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہیں اور ان کے خلاف میونسپل کارپوریشن کارروائی کرتی ہے۔

SEE ALSO: بلڈوزر ایکشن: سپریم کورٹ کا آسام حکومت کو توہینِ عدالت کا نوٹس

لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر کہیں کوئی تشدد ہو گیا تو انتظامیہ کی جانب سے یہ کہہ کر متاثرین کے مکانات مسمار کر دیے جاتے ہیں کہ ان کی تعمیر ناجائز طریقے سے ہوئی ہے۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انتظامیہ جج نہیں بن سکتی اور یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں۔ ایسا کرنا اپنی حدود سے تجاوز اور غیر قانونی ہے۔

عدالت کے مطابق سنگین جرائم کے ملزموں اور مجرموں کے خلاف بھی ضابطے کی پابندی کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

عدالت نے کہا کہ یہ رویہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے اہل کار من مانی نہیں کر سکتے۔ ایسے اہل کاروں کو بخشا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اہل کاروں کو جواب دہ بنایا جائے گا اور ان سے معاوضہ وصول کیا جائے گا۔

جسٹس بی آر گوئی نے کہا کہ کسی کا گھر اس کی امید ہوتی ہے۔ اس کا خواب ہوتا کہ اس کے سر سے چھت کبھی نہ چھینی جائے۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ ایسے شخص کا گھر گرا سکتی ہے جس پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے؟ اس کا فیصلہ عدلیہ کرے گی کہ الزامات میں کتنی سچائی ہے۔

بینچ کے مطابق یہ دیکھنا افسوس ناک ہے کہ عورتوں، بچوں اور معمر افراد کو راتوں رات گھسیٹ کر سڑک پر پہنچا دیا جائے۔ اگر انتظامی اہل کار کچھ وقت کے لیے اپنا ہاتھ روک لیں تو آسمان سر پر نہیں گر جائے گا۔

SEE ALSO: بھارت: 'بلڈوزر جسٹس' پر سپریم کورٹ کا حکمِ امتناع، اپوزیشن جماعتوں کا خیرمقدم

عدالت نے مزید کہا کہ جب کسی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے اچانک منتخب کیا جاتا ہے لیکن اسی نوعیت کی دیگر عمارتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ اصل مقصد غیر قانونی عمارت کا انہدام نہیں بلکہ بغیر ٹرائل کے سزا دینا ہے۔

واضح رہے کہ اترپردیش کے شہروں پریاگ راج (الہ آباد)، کانپور، علی گڑھ اور مدھیہ پردیش، راجستھان اور مہاراشٹر سمیت متعدد ریاستوں میں کسی احتجاج میں شرکت کرنے والوں یا پولیس کے ساتھ تصادم میں شامل رہنے والوں کے مکانات منہدم کیے گئے ہیں۔ ان متاثرین میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔

البتہ عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ ہدایات کسی عوامی جگہ پر ناجائز قبضے پر نافذ نہیں ہوں گی۔

عدالت نے دستور کی دفعہ 142 کے تحت اپنے اختیارِ خصوصی کا استعمال کرتے ہوئے انہدامی کارروائی کے لیے رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے عوامی جگہ پر ناجائز قبضہ کرکے گھر یا دکان کی تعمیر کی ہے تو اسے پیشگی نوٹس دیا جائے اور اس سے 15 دنوں کے اندر جواب مانگا جائے۔

مزید یہ کہ نوٹس رجسٹرڈ پوسٹ سے بھیجا جائے اور عمارت کے بیرونی حصے پر چسپاں بھی کیا جائے۔ اس میں غیر قانونی تعمیرات اور قانونی خلاف ورزی کی تفصیلات ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ انہدام کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ انہدامی کارروائی کی ویڈیو گرافی کی جائے۔ رہنما ہدایات کی خلاف ورزی توہینِ عدالت مانی جائے گی۔

خیال رہے کہ مسلمانوں کی ایک تنظیم جمعیت علما ہند نے بلڈوزر کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

اے پی سی آر سے وابستہ ندیم خان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ تنظیم کی جانب سے جتنے نکات اٹھائے گئے تھے سب عدالت نے تسلیم کر لیے ہیں۔

ان کے مطابق مختلف ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ڈر کی وجہ سے کوئی بھی شخص عدالت میں جانے کی جرات نہیں کر پاتا تھا۔ مذکورہ دونوں متاثرین نے حکومت اور مقامی افراد کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود عدالت کا رخ کیا۔

انہوں نے کہا کہ متاثرین کے عدالت نہ جانے کی وجہ سے بلڈوزر کارروائی کے خلاف مفاد عامہ کی عذرداری (پی آئی ایل) داخل کی جاتی تھی۔ لیکن ان دونوں متاثرین کے براہ راست سامنے آنے کی وجہ سے پہلی بار رٹ پٹیشن داخل ہوئی اور اے پی سی آر نے ان کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

SEE ALSO: بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو ’بلڈوزر جسٹس‘ سے روک دیا

عدالت نے اپنے فیصلے میں بلڈوزر ایکشن میں شامل انتظامیہ کے اہل کاروں کو جواب دہ بنانے اور ان سے معاوضہ وصول کرنے کی بات کہی ہے۔ اس پر ندیم خان کا کہنا ہے کہ ہماری اگلی کوشش متاثرین کو معاوضہ دلوانے کی ہوگی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سات نومبر کو اترپردیش کے مہاراج گنج میں سڑک کشادہ کرنے کے لیے ایک شخص منوج ڈبرے وال آکاش کے مکان کو بلڈوز کرنے کے واقعے پر از خو دنوٹس لیتے ہوئے سماعت کی اور ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مکان مالک کو 25 لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرے۔

ندیم خان کہتے ہیں کہ ناجائز قبضہ قرار دے کر جتنی بھی انہدامی کارروائی ہوئی ہے ان سب کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا اور انتظامیہ کے اہل کاروں کو فریق بنا کر معاوضے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن پر ملک گیر پابندی عائد کی تھی۔ عدالت نے یکم اکتوبر کو سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت 2022 سے ہی اس معاملے پر سماعت کر رہی تھی۔

مرکزی حکومت اور دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل کے ایم نٹراجن کا استدلال تھا کہ انہدام پر ملک گیر پابندی کا فائدہ غیر قانونی قابضین کو نہیں ہونا چاہیے۔

حکومتوں کا شروع سے یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اس بنیاد پر انہدامی کارروائی ہوتی ہے کہ مکان یا دکان کا مالک کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ املاک کا انہدام میونسپل قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے اور ضابطوں کی پابندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔