یکم اپریل کو فروخت ہونے والے یہ چار نجی روزنامے اس سےقبل ہفت روزہ کے طور پر شائع ہوتے تھے، اور یوں روزناموں پر ایک طویل عرصے سےجاری سرکاری اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے
واشنگٹن —
عشروںٕ بعد پہلی مرتبہ پیر کے دِن آزاد اخبارات برما کےنیوز اسٹینڈز کی زینت بنے، جِن روزناموں کو نئی آزادی حاصل ہے اور یہ اخباری صنعت میں ایک انقلاب کی غمازی کرتے ہیں، جن پر فوجی حکمرانی کے دور میں سخت کنٹرول عائد تھا۔
یکم اپریل کو شائع ہونے والے یہ چار نجی روزنامے اس سےقبل ہفت روزہ ہوا کرتے تھے، اور یوں روزنامہ اخبارات پر ایک طویل عرصے سےجاری سرکاری اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
برما کے کُل 16ہفت روزہ اخبارات کو روزنامے کے طور پر اشاعت کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں، لیکن مالی اور انتظامی چیلنجوں کی بنا پر اِن کی اکثریت فوری پیش رفت نہ دکھا سکی۔
بے چینی سے منتظر شائقین نےاخبارات کے مارکیٹ میں آتے کے ساتھ ہی اُنھیں خریدا، اور یوں شائع ہونے والے چاروں اخبارات فوری طور پر فروخت ہوگئے۔ تاہم، دیگر اخبار جیسا کہ’ڈی ویو‘ نام کا اخبار ہے جسے اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ شائع کرتی ہے، اُسے شائع ہونے میں ابھی تک دقتیں حائل ہیں۔
مالی مشکلات، پرانی مشینری، نامہ نگاروں کی عدم دستیابی اور تقسیم کے عمل کے مسائل میڈیا کے اداروں کے لیے اب بھی رکاوٹ کا باعث بنے ہوئے ہیں، جو اشاعت کے کام کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
گذشتہ اگست میں حکام نے برما میں نجی مطبوعات کی سینسرشپ کا آغاز کردیا تھا، جسے میانمار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔
چار ماہ بعد اُنھوں نے آزاد روزناموں کی اشاعت کی اجازت کا اعلان کیا، جن پر 1964ء میں بندش عائد کی گئی تھی، تاکہ حکومت کی سینسرشپ کے احکامات کی تعمیل ہو سکے۔
فوجی حکومت نےایسے ہفت روزہ اشاعتوں کی اجازت دے رکھی تھی، جن کی تقسیم سے قبل سینسر پر مامور اہل کاروں کو وقت دیا جاتا تھا، تاکہ وہ قابلِ اعتراض مواد کو گرفت میں لا سکیں۔
یکم اپریل کو شائع ہونے والے یہ چار نجی روزنامے اس سےقبل ہفت روزہ ہوا کرتے تھے، اور یوں روزنامہ اخبارات پر ایک طویل عرصے سےجاری سرکاری اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
برما کے کُل 16ہفت روزہ اخبارات کو روزنامے کے طور پر اشاعت کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں، لیکن مالی اور انتظامی چیلنجوں کی بنا پر اِن کی اکثریت فوری پیش رفت نہ دکھا سکی۔
بے چینی سے منتظر شائقین نےاخبارات کے مارکیٹ میں آتے کے ساتھ ہی اُنھیں خریدا، اور یوں شائع ہونے والے چاروں اخبارات فوری طور پر فروخت ہوگئے۔ تاہم، دیگر اخبار جیسا کہ’ڈی ویو‘ نام کا اخبار ہے جسے اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ شائع کرتی ہے، اُسے شائع ہونے میں ابھی تک دقتیں حائل ہیں۔
مالی مشکلات، پرانی مشینری، نامہ نگاروں کی عدم دستیابی اور تقسیم کے عمل کے مسائل میڈیا کے اداروں کے لیے اب بھی رکاوٹ کا باعث بنے ہوئے ہیں، جو اشاعت کے کام کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
گذشتہ اگست میں حکام نے برما میں نجی مطبوعات کی سینسرشپ کا آغاز کردیا تھا، جسے میانمار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔
چار ماہ بعد اُنھوں نے آزاد روزناموں کی اشاعت کی اجازت کا اعلان کیا، جن پر 1964ء میں بندش عائد کی گئی تھی، تاکہ حکومت کی سینسرشپ کے احکامات کی تعمیل ہو سکے۔
فوجی حکومت نےایسے ہفت روزہ اشاعتوں کی اجازت دے رکھی تھی، جن کی تقسیم سے قبل سینسر پر مامور اہل کاروں کو وقت دیا جاتا تھا، تاکہ وہ قابلِ اعتراض مواد کو گرفت میں لا سکیں۔