پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران؛ بڑے تاجر مفاہمت کے لیے سرگرم

پاکستان کی دگرگوں معاشی صورتِ حال اور طویل ہوتے سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کی بڑی کاروباری شخصیات نے سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد تمام فریقوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کی کوشش بتایا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کو مختلف ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس سلسلے میں کئی بڑے تاجروں اور سرمایہ کاروں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے بھی کیے ہیں اور انہوں نے ملاقات کی حامی بھری ہے۔ اس سلسلے میں لاہور اور کراچی کے بڑے بزنس مین کافی فعال نظر آ رہے ہیں۔

معروف بزنس مین عارف حبیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان ملاقاتوں کا مقصد سیاسی قیادت کو اپنے خدشات سے آگاہ کرنے کے علاوہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنا ہے۔

اُن کے بقول موجود صورتِ حال سے نکلنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو کچھ رعایتیں بھی دیں اور جو بھی ایشوز ہیں ان پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صورتِ حال اگر جوں کی توں ہی رہی تو نہ جانے اس کے کتنے خطرناک نتائج ملک کے لیے نکل سکتے ہیں۔

عارف حبیب نے مزید بتایا کہ اس سوچ کے ساتھ ہی تمام بڑے تاجر اور صنعت کار جمع ہوئے ہیں اور سیاست دانوں کو یہ پیغام پہنچایا جارہا ہے کہ وہ اپنے مسائل بیٹھ کر خود حل کریں۔

اُن کے بقول اگر اس سے متعلق ان کی کوئی خدمات کی ضرورت ہے تو وہ بھی حاضر ہیں اور اپنا کردار ادار کرنے کو بھی تیار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بزنس کمیونٹی کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے بھی یہ پیغام ارسال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اس بحران کے حل میں کردار ادا کرکے معاملات کو درست سمت میں ڈالیں۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ملک کی بڑی کاروباری شخصیات وزیرِ اعظم شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم عمران خان، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر سیاست دانوں سے الگ، الگ ملاقاتوں کا ارادہ رکھتی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام کی سخت ضرورت ہے لیکن امکانات معدوم ہورہے ہیں، ماہرین

جو تاجر اس حوالے سے فعال نظر آرہے ہیں ان میں عارف حبیب کے علاوہ عقیل کریم ڈھیڈی، میاں احسان، اعجاز گوہر، میاں عامر محمود اور دیگر کے نام سامنے آرہے ہیں۔

اس سلسلے میں گوہر اعجاز سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے، میاں احسان کی ملاقات وزیر اعظم شہباز شریف سے، آرمی چیف سے ملاقات کی ذمے داری میاں عامر محمود کو اور عمران خان سے ملاقات کے لیے عقیل کریم ڈھیڈی کو ٹاسک دیا گیا ہے۔

عمران خان نے جمعرات کو اس حوالے سے صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اب تک ان کی کوئی ملاقات کسی سے بھی نہیں ہوئی لیکن وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر مذاکرات صرف انتخابات سے متعلق ہو سکتے ہیں۔

تاجر و صنعت کار برادری کے نمائندوں نے اپنی مشترکہ پریس ریلیز میں اس رائے کا اظہار کیا کہ موجودہ صورتِ حال ملک میں انارکی کا باعث بنے گی اور اس سے ملک کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تاجروں کے اجلاس میں اس بات پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا کہ موجودہ صورتِ حال نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ کو بہت حد تک خراب کیا ہے ۔


تاجر رہنماوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، مزیدخرابی کو روکنے کے لیے مجموعی صورتِ حال پر فوری طور پر قابو پانا ہوگا۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ تاجر برادری بھی ملک کی موجودہ صورتِ حال پر پریشان ہے لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز بالخصوص سیاسی جماعتوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

معاشی تجزیہ کار اور پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ملک کو موجودہ گھمبیر معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کوئی معاشی سمت نظر نہیں آتی جب کہ دوسری جانب ملک ایڈہاک پالیسیوں پر چلا چلا کر نوبت ڈیفالٹ کے قریب آچکی ہے۔

اُن کے بقول ملک کو کوئی دوست ملک، آئی ایم ایف یا کوئی اور مالیاتی ادارہ اس مشکل سے نکالنے میں مددگار نہیں بن رہا جب کہ غربت اور مہنگائی سے عام آدمی کا جینا دو بھر ہوچکا ہے۔ ایسے میں سیاسی استحکام معاشی بہتری کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے۔