پاکستان میں حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی کامیابی کو مبصرین ان کی ذاتی مقبولیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس کامیابی سے نہ صرف جماعت کے اندرونی اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ کارکنان کی اپنی جماعت بالخصوص خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت سے توقعات بڑھ جائیں گی۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کی ضمنی انتخابات میں کامیابی کی وجہ سے خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کی انتظامی امور پر توجہ کم ہو سکتی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے خلاف اپنی سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ وہ اس سلسلے میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم ابھی تک انہوں نے اس مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔
عمران خان نےحالیہ ضمنی انتخابات میں آٹھ میں سے جن چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اس میں تین حلقے خیبرپختونخوا کے شہروں پشاور، چارسدہ اور مردان کے ہیں۔ عمران خان نے ان حلقوں میں وفاقی مخلوط حکومت کی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دی ہے۔
مگر غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق ان حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں کم رہی۔
SEE ALSO: ’لانگ مارچ اکتوبر میں ہوگا، اعظم سواتی پر تشدد کا معاملہ عالمی فورمز پر اٹھائیں گے’سینئر صحافی طلعت حسین اپنے ٹویٹ میں فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ کے اعداد و شمار شیئر کیے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 35 فی صد رہا، 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں یہ چار لاکھ 70 ہزار 890 ووٹرز کم ہے۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کی تینوں نشستوں پر ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 27 اعشاریہ چار فی صد رہا۔ البتہ پشاور میں انتخاب میں خواتین کے ووٹوں کا تناسب سب سے کم یعنی 10 اعشاریہ چار فی صد ریکارڈ کیا گیا۔
مبصرین حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کی وجہ عمران خان کی ذاتی مقبولیت کو قرار دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کی جگہ کوئی اور پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں سے مقابلہ نسبتاً بہتر ہوسکتا تھا۔
پشاور کے سینئر صحافی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار عرفان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو پشاور سمیت کئی اضلاع میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا اگر عمران خان نے خود ان تین حلقوں میں انتخابات میں حصہ نہ لیا ہوتا تو نتائج شاید 19 دسمبر 2021 کے بلدیاتی انتخابات سے مختلف نہ ہوتے۔
تجزیہ کار اور سینئر صحافی شاہد حمید سمجھتے ہیں کہ پشاور اور چارسدہ میں عمران خان کے خود امیدوار ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اتنے ووٹ حاصل نہ کرسکی جو 2018 میں کیے تھے۔
ان کے بقول مردان کے حلقے میں صوبائی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کی غیرمعمولی دلچسپی اور کوششوں سے پی ٹی آئی کے ووٹوں میں لگ بھگ 18 ہزار کا اضافہ ہوا۔ البتہ مردان کے حلقے میں پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا قاسم جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے، کے ووٹوں کی تعداد میں 2018 کے مقابلے میں 12 ہزار سے زیادہ ووٹوں کا اضافہ ہوا۔
شاہد حمید کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کا اپنی جماعت پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد کارکنان کی قیادت اور صوبائی حکومت سے توقعات بڑھیں گی۔ لیکن ان توقعات کو پورا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ان کے بقول یہ بات غور طلب ہے کہ تحریک انصاف گزشتہ دس برسوں سے صوبے میں حکومت میں ہے لیکن اس کے زیادہ تر کارکنان ابھی تک اپنی جماعت کی حکومت سے بظاہر مطمئن نظر نہیں آتے۔
SEE ALSO: عمران خان کی کامیابی، ضمنی انتخابات کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی حکومت ان کارکنان کی توقعات پر پوری نہیں اتری تو آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے نتائج توقعات کے برعکس آسکتے ہیں۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات جیتنے کے باوجود پی ٹی آئی کو کوئی بڑا فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ آئین کے مطابق عمران خان کو ایک مہینے میں میانوالی سے 2018 کے عام انتخابات میں جیتی گئی نشست چھوڑ کر چھ میں سے کسی ایک نشست پر حلف لینا ہوگا اور ان حالات میں پھر چھ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان ظاہر شاہ طورو نے ضمنی انتخابات میں اپنی جماعت کی فتح کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات کے تاثر کو مسترد کیا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اور مرکزی سطح کے عہدیداروں سے لے کر کارکنان تک تمام لوگ عمران خان کی قیادت میں متحد ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں صوبائی قیادت کی حکمت عملی کے مطابق بہتر نتائج آئے ہیں۔
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے محاذ آرائی پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت کئی ماہ سے خیبرپختونخوا کے بقایا جات ادا نہیں کر رہی ہے۔
ان کے بقول مخالف جماعتوں نے عمران خان کے خلاف متحدہ ہو کر الیکشن لڑا اور انہیں ہر صورت ہرانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود عمران خان کی کامیابی سے واضح ہوگیا کہ عوام نے ان لوگوں کو مسترد کردیا ہے۔