واشنگٹن ڈی سی۔ (شرمین لی، وی او اے) اب جب آب و ہوا کی تبدیلی پر بین الاقوامی کانفرنس 30 نومبر سے دوبئی میں شروع ہو رہی ہے ماہرین اس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں کہ اس کانفرنس میں آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جہاں معدنی ایندھن سے چھٹکارے اور متبادل توانائی کے استعمال پر بات ہو گی، آیا وہاں پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کا موضوع بھی زیر بحث آسکتا ہے؟
ماہرین اس بارے میں دلیل دےرہے ہیں کہ چرنوبل اور فوکو شیما کے حادثوں کے بعد جوہری توانائی کے بارے میں جو حفاظتی خدشات پیدا ہو گئے تھے کیا اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز سامنے آنے کے بعد ان میں کوئی کمی آئی ہے ؟اور اگر ایسا ہے تو جوہری توانائی کو شہری مقاصد کے لیے تیار کرنے اور اسے استعمال میں لانے کا امکانات کیا ہیں؟
اور ان امکانات کو عملی شکل دینےمیں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟ ماہرین خاص طور پر چین کے حوالےسے یہ گفتگو کر رہے ہیں۔ ماہرین کی آرا پر مبنی ایک جائزہ اس وقت آپ کےلیے پیش ہے۔
چین اور جوہری توانائی کے منصوبے
آ ب و ہوا کی تبدیلی کی 28 ویں بین الاقوامی کانفرنس، سی او پی 28 کے متنظمین اس خیال کے پیش نظر کہ جوہری توانائی کو دنیا سے معدنی ایندھن سے چھٹکارا دلانے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہئے , ممکنہ طور پر جوہری توانائی کو مستقبل کی اپنی توانائی کا ایک بڑا حصہ بنانے کے چین کے منصوبوں سےمطمئن ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ چرنوبل ، اور فوکوشیما میں جوہری توانائی کے بڑے بڑے حادثوں نے بیشتر دنیا میں جوہری توانائی کے پر امن استعمال کے حوالے سے ایک مثبت تاثر کو کمزور کیا ہے ، تاہم چین جو دنیا میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ملک ہے ، نئے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر میں پر عزم طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا کی ستمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق بیجنگ نے 2021 سے لے کر اب تک کم از کم 21 نئے پاور یونٹس کی منظوری دی ہے، اور توقع ہے کہ ہر سال چھ سے آٹھ نئے یونٹس کی منظوری دے دے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اس وقت امریکہ کے سوا کسی بھی ملک سے زیادہ جوہری توانائی پیدا کر رہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ 2035 تک توانائی کی اپنی قومی ضروریات کا دس فیصد اور 2060 تک 18 فیصد جوہری توانائی کے زریعے پورا کر ے گا۔
چین کی جوہری توانائی کے منصوبے اور آب وہوا کی بین الاقوامی کانفرنس
توقع ہےچین کی یہ کوشش آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس یا سی او پی 28 کے صدر سلطان الجبرکی سوچ سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس سال کے شروع میں ایجنسی فرانس پریس سے بات کرتے ہوئے نیوکلئیر انرجی کو توانائی کی ٹرانزیشن کا ایک مضبوط پل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جوہری توانائی کی توسیع کی حمایت کرتے ہیں۔
سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے لیبارٹری مینیجر اور ہانگ کانگ نیوکلیر سوسائٹی کے چیئر پرسن ، ڈاکٹر بنگ لیم لک کہتے ہیں کہ جوہری توانائی کےعمل دخل پر آب وہوا کی کانفرنس ، سی او پی 28 میں امکان ہے کہ توانائی کی منتقلی گفتگو کا ایک اہم موضوع رہے گا
جوہری بجلی گھروں کا ہدف پورا کرنے میں چین کو درپیش رکاوٹیں
تاہم چین کو اپنے اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ایک طویل راستہ طے کرنا ہو گا اور متعدد رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ اس وقت جوہری توانائی پیدا کرنے کی اس کی اہلیت بجلی پیدا کرنے کی اس کی اہلیت کے مقابلے میں صرف 2اعشاریہ 2 فیصد ہے اور وہ جوہری توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے تھرمل، ہائیڈرو، سولر اور ونڈ انرجی سمیت گرین انرجی کے دوسرے ذرائع میں سب سے پیچھے ہے۔
فوکو شیما کا حادثہ اور حفاظتی خدشات
آکسفورڈ انسٹی ٹیو ٹ آف انرجی اسٹڈیز کے ایک سینیئر ریسرچ فیلو، فلپ اینڈریو۔سپیڈکے مطابق جاپان میں 2011 میں فوکوشیما کے تباہ کن حادثے کے بعد حفاظتی خدشات نے چین کی جوہری توانائی کی ترقی کو متاثر کیا ہے ۔
جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر کی پالیسی
وی او اے کو ایک ویڈیو انٹرویو میں فلب اینڈریو نے کہا کہ فوکو شیما میں جو کچھ ہوا اس کے بعد چین نے تمام نئے جوہری پلانٹس کی تعمیر معطل کر دی۔ اور اس پالیسی کو بھی برقرار رکھا کہ مرکزی چین میں کوئی جوہری پاور پلانٹ تعمیر نہیں کیا جا سکتا ۔
جوپلانٹس تعمیر ہو ں گے وہ توقع ہے کہ ساحلی پٹی پر تعمیر ہوں گے کیو ں کہ انہیں چلانے کے لیے تازہ پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اعلی ٰ درجے کے تابکار پانی کو قریب واقع پانیوں میں خارج کرنا کم خطرناک ہوتا ہے۔
جوہری پلانٹس کے ماہر کارکنوں کی کمی
جوہری امور کے ماہر نے مزید کہا کہ ، شفاف توانائی کے دوسرے پلانٹس مثلاً شمسی اور ونڈ پلانٹس کے مقابلے میں جوہری پلانٹس کو اپنی پیچیدہ نوعیت اور حفاظتی خدشات کے باعث تعمیر کرنے اور چلانے کے قابل بنانے میں زیادہ وقت لگتا ہے چین کے پاس اس وقت اس شعبے میں ماہر کارکنوں کی کمی ہے۔
سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے لیبارٹری مینیجر اور ہانگ کانگ نیوکلیر سوسائٹی کے چیئر پرسن ، ڈاکٹر بنگ لیم لک کے مطابق چین میں اس وقت 55 جوہری پاور پلانٹس ہیں اور 20 سے زیادہ زیر تعمیر ہیں ۔ 2035 تک 10 فیصد جوہری توانائی کا حصول مشکل ہے ۔
پلانٹس کی تعمیر کے نئے مقامات کی تلاش میں مشکل
ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بنگ لک نے کہا ، ایک کارخانے کی تعمیر میں اوسطاً لگ بھگ دس سال لگتے ہیں ، تو جب تک حکام نئے پلانٹس کی منظوری کی رفتار تیز نہیں کرتے ، 10 فیصد کے ہدف تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ساحل کے ساتھ کارخانوں کی تعمیر کے لئےنئے مقامات کو تلاش کرنا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔
عوامی مخالفت
اگرچہ چین میں کبھی کوئی سنگین نیوکلیرحادثہ نہیں ہواہے تاہم کچھ کمیونٹیز اپنے قریب کسی جوہری پلانٹ کی تعمیر کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں ۔
لک نے کہا کہ 2013 میں گوانگ ڈونگ میں جوہری ایندھن کے ایک مرکز کی تعمیر کا منصوبہ عوامی مخالفت کی وجہ سے ترک کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس تاثر کو تبدیل کرنے کے لے مزید عوامی آگاہی کی ضرورت ہے۔
جیو پولیٹیکل کشیدگی .
چین اور مغرب کے درمیان کشیدگی بھی ایک رکاوٹ ہو سکتی ہے ۔ برطانیہ نے گزشتہ سال چین کی ایک کمپنی کو اپنے Sizewell جوہری پراجیکٹ سے نکال دیا تھا۔
حال ہی میں امریکہ نے بھی چین کے ساتھ قومی سلامتی کے مفادات اور مشترکہ دفاع سے متعلق عشروں کے تعاون کے بعد اس کے ساتھ جوہری تجارت ختم کر دی ہے۔ تاہم اس نے دوسرے ملکوں، مثلاً پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کی برآمد شروع کر دی ہے ۔
پیش رفت کے امکانات
جوہری توانائی کی چوتھی جنریشن اور چھوٹے ری ایکٹرز
ان تمام رکاوٹوں کے باوجود چین کے جوہری توانائی کے اہداف کےحصول میں کچھ پیش رفت کا بھی امکان ہے۔ لک کہتے ہیں کہ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جوہری توانائی کی چوتھی جنریشن اور ری ایکٹرز کے چھوٹے ماڈلز کے سامنے آنے کے بعد سیفٹی کے خدشات میں کمی آرہی ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے بڑے پیمانے پرکسی حادثے کا خطرہ تقریباً ناممکن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس سے چین کےلیے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا اور مرکزی چین میں مزید جوہری پلانٹس کی تعمیر کاآغاز ممکن ہو سکتا ہے۔
لک نے کہا کہ چھوٹے ری ایکٹرز میں بڑے ری ایکٹرز کی نسبت انرجی کی کھپت کم ہوتی ہے اور انہیں ٹرانسپورٹ کرنا اور انسٹال کرنا زیادہ آسان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی چوتھی جنریشن ، جسے اب بیجنگ کی Tsinghua ا یونیورسٹی میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے حرارت کے خلاف زیادہ مزاحمت کی حامل ہے اس لیے وہ درجہ حرارت کی زیادتی کی وجہ سے پلانٹ میں کسی دھماکے کے خطرے کو کم کرتی ہے۔
لیکن اسٹینفورڈ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی ایک ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ یہ ری ایکٹرز جنہیں جوہری توانائی کے مستقبل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، روائتی ری ایکٹرز کی نسبت زیادہ تابکاری فضلہ پیدا کر سکتا ہے۔
بین الاقوامی تعاون
چین کی جانب سے ری ایکٹرز کی چوتھی جنریشن کی تعمیر توقع ہے کہ چین، امریکہ ، فرانس، جاپان ، جنوبی کوریا اور برطانیہ کے درمیان ایک عرصے سے موجود تکنیکی معلومات کے تبادلے سے مستفید ہو گی ۔
مثال کے طور پر چین اور فرانس کے درمیان تعاون چند عشرے قبل شروع ہوا تھا۔ چین کے پہلے دو جوہری پلانٹس 1980 کے عشرے کے وسط میں ہانگ کانگ کے قریب تعمیر ہوئے تھے جسن میں امپورٹڈ ٹیکنالوجی استعمال ہوئی تھی اور جن کا انتظام سرکاری ملکیت والی توانائی کی ایک کمپنی، الیکٹریسائٹ دی فرانس نے چلایا تھا۔
اس کے بعد چین میں بہت سے مشترکہ پراجیکٹس ہوئے اور دونوں ملکوں نے اس سال اپریل میں شہری استعمال کے لیے جوہری توانائی کے شعبے میں عملی تعاون بڑھانے پر ایک مشترکہ بیان شائع کیا۔
جوہری فضلے کا مرکز
اینڈریو سپیڈ نے کہا کہ فرانس جوہری فضلے کی ری پراسسنگ میں چین سے آگے ہے ، اس لیے دونوں اس پر مل کر کام کر سکتے ہیں ۔ فرانس ایک مرکز تعمیر کررہا ہے جہاں تابکاری فضلے کو زمین سے 500 میٹر نیچے تلف کیا جاسکتا ہے ۔
یہ مرکز 2035 میں کام کرنے لگے گا۔ چین اگر جوہری فضلے کی تلفی کا کوئی مرکز تعمیر کرنا شروع کرے تو وہ جلد از جلد بھی 2040 کی دہائی تک ممکن ہو سکتا ہے ۔
سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے لیبارٹری مینیجر اور ہانگ کانگ نیوکلیر سوسائٹی کے چیئر پرسن ، ڈاکٹر بنگ لیم لک کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی 28 ویں انٹر نیشنل کانفرنس میں جہاں آب وہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے معدنی ایندھن کے استعمال میں کمی اور تونائی کے متبادل ذرائع کی جانب منتقلی پر بات ہو گی وہاں ممکنہ طور پر غیر فوجی مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا استعمال گفتگو کا ایک اہم موضوع رہے گا ۔
وی او اے نیوز۔(شرمین لی)