|
لاہور -- پاکستان اور بھارت کے میدانی علاقوں بالخصوص لاہور اور دہلی ان دنوں شدید اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ کبھی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ٹاپ پر ہوتا ہے تو کبھی نئی دہلی پہلے نمبر پر آ جاتا ہے۔
چند روز قبل اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستانی پنجاب کی وزیرِ اعلٰی مریم نواز نے بھارت کے ساتھ 'کلائمیٹ ڈپلومیسی' کی تجویز دی تھی۔
ایک بیان میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ "اسموگ کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے، دونوں ملکوں کو اس زہریلے دھوئیں کا مقابلہ کرنے کے لیے 'کلائمیٹ ڈپلومیسی' کے تحت مل کر کام کرنا چاہیے۔"
مریم نواز نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا تھا جب بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس میں پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں حکام کی جانب سے اسموگ بڑھنے کی وجہ بھارت کے سرحدی دیہات میں فصلوں کو آگ لگانا بتائی جاتی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ٹریفک کا دباؤ اور فیکٹریوں سے نکلنا والا دھواں بھی اسموگ کا باعث بنتا ہے۔
'تجویز پر کام وفاقی حکومت کو ہی کرنا ہے'
ترجمان پنجاب حکومت اور وزیرِ اطلاعات پنجاب اعظمٰی بخاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز نے ایک تجویز دی ہے جس پر کام وفاقی حکومت ہی کر سکتی ہے۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے مطابق پاکستان میں 'موسمیاتی سفارت کاری' کا لفظ پہلی بار استعمال کیا گیا ہے جب کہ دنیا کے کچھ ممالک میں یہ استعمال بھی ہو رہا ہے۔
سیکریٹری ماحولیات پنجاب راجہ جہانگیر بتاتے ہیں کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے خلا سے لی جانے والی تصاویر میں اس موسم میں بھارت اور پاکستان کے میدانی علاقوں میں سرخ لائن نظر آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتِ حال کتنی خراب ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ بھارت کے ساتھ اسموگ ڈپلومیسی پر دو طریقوں سے بات ہو سکتی ہے۔ ایک طریقہ وزارتِ خارجہ کے ذریعے بھارت سے رابطہ کرنا ہے اور دوسرا مریم نواز بھارتی پنجاب کے حکام سے بھی رابطہ کر سکتی ہیں۔
'مل کر کام کرنے کے مواقع موجود ہیں'
پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی اور فضائی آلودگی کے لیے سال بھر عدالتوں میں مقدمات بھی چلتے رہتے ہیں۔
اِن مقدمات میں پیش ہونے والے سینئر وکیل احمد رافع عالم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر فضائی آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں جس میں سب سے پہلے دونون ملکوں کو اسموگ کے اسباب کی نشان دہی کرنا ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آج اور دو ہفتے پہلے اُتنی ہی گاڑیاں چل رہی تھیں اُتنی ہی صنعتیں چل رہی تھیں بلکہ آئے روز اُن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب چوں کہ موسم ٹھنڈا ہو گیا ہے تو یہ آلودگی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔
احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر اپنے اپنے ملکوں میں استعمال ہونے والے فیول کا معیار بہتر کر سکتے ہیں۔ دونوں ملک مل کر فصلوں کی باقیات جلانے پر مشترکہ لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔
راجہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی پنجاب کا سب سے بڑا چیلنج بھارتی پنجاب ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہلی نہ صرف بھارت کا بلکہ دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پورا سال (ویسٹرن ونڈ کوریڈور) مغرب سے ہوائیں، بارشیں اور ٹھنڈک آتی ہیں۔ لیکن موسم بدلتا ہے تو بدقسمی سے (ایسٹرن ونڈ کوریڈور) مشرق کی جانب سے ہوائیں چلتی ہیں اور بھارت سے سارا دھواں پاکستان آنا شروع ہو جاتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر لاہور شہر پر ہوتا ہے۔
راجہ جہانگیر کے مطابق بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس سے پہلے کاشت کار پورے سال میں ایک فصل کاشت کرتا تھا اور اُس کے بعد زمین کو خالی چھوڑ دیتا تھا۔ لیکن اب یہ رجحان بدل چکا ہے اور سال میں دو سے تین فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی فصل کو جلا کر نئی فصل کاشت کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ 2017 میں اُس وقت کے پاکستانی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی شہباز شریف نے اسموگ کے خاتمے کے لیے بھارت سے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
نومبر 2017 میں شہباز شریف نے 'ایکس' پر بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی کیپٹن امریندر سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "میں پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی لگا چکا ہوں۔ اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی کوئی ایسا فیصلہ کریں گے۔"
خیال رہے کہ 90 کی دہائی میں سارک ممالک کے ارکان نے آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
سال 1998 میں سارک کے رکن ممالک ایک معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں جس کی رو سے تمام رکن ممالک آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
دنیا کے کئی عالمی فورمز پر بھی 'کلائمیٹ ڈپلومیسی' کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔
راجہ جہانگیر کے مطابق پنجاب میں بڑے پیمانے پر چاول کی کاشت کی جاتی ہے اور رواں سال گزشتہ سال کی نسبت 10 فی صد زیادہ چاول کاشت ہوا ہے۔
اُن کے بقول کاشت کار جب اگلی فصل کی تیاری کرتا ہے تو فصل کی باقیات کو جلاتا ہے جس کے باعث صوبے بھر میں اور خاص طور پر لاہور میں زیادہ دھواں آتا ہے۔
راجہ جہانگیر کے مطابق لاہور میں ماحولیاتی آلودگی کی دوسری بڑی وجہ شہر کی ٹریفک اور اِس سے نکلنے والا دھواں ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ محکمہ ایکسائز کے ریکارڈ کے مطابق اُن کے پاس 45 لاکھ موٹرسائیکلیں اور 13 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اِسی طرح لاہور شہر میں ہر روز 1800 نئی موٹرسائیکلیں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اسموگ پالیسی کے ذریعے فضائی آلودگی پر بات کرنا دونوں اطراف کے پالیسی بنانے والوں پر منحصر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور دہلی پر منحصر ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری تناؤ کے ماحول کو کیا اسموگ ڈپلومیسی سے کچھ نرم کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کی وزیراعلٰی نے ایک تجویز ضرور دی ہے لیکن یہ کام وفاقی حکومت کا ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایس سی او اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ کی پاکستان آمد اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ نرمی ضرور ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب یہ دیکھنا ہے کہ آئندہ سال جو چیمپئنز ٹرافی ہو گی اُس میں بھارت اپنی کرکٹ کی ٹیم پاکستان بھیجتا ہے یا نہیں۔ بھارتی ٹیم کے آنے یا نہ آنے سے ایک دوسرا اشارہ ہو گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کتنے بہتر ہوئے ہیں۔