'گرین پاکستان اینیشیٹو:' کیا زرعی انقلاب کے لیے فوج کی مدد کی ضرورت ہے؟

پاکستان کی حکومت نے فوج کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب کے منصوبے 'گرین اینیشیٹو' کا اعلان کیا ہے۔ تاہم کسان تنظیموں اور قانونی ماہرین نے اس منصوبے پر عمل درآمد اور فوج کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

منصوبے کے تحت ملک میں زرعی شعبے میں سرمایہ کاری، پیداوار میں اضافے کے لیے جدت اور ہائبرد بیج متعارف کرانے کے علاوہ زرعی شعبے میں شمسی توانائی اور پن بجلی کا استعمال بھی شامل ہے۔

اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ یہ آئیڈیا درحقیقت آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ہے.

پاکستان میں کسانوں کی تنظیموں کو گلہ ہے کہ فوج کو ایسے منصوبوں میں شامل کرنےکے بجائے چھوٹے کاشت کاروں کو مراعات دی جائیں تو پاکستان میں سبز انقلاب آ سکتا ہے۔

'یہ کارپوریٹ فارمنگ کا ہی دوسرا نام ہے'

آل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق سمجھتے ہیں کہ گرین انیشیٹو پاکستان بنیادی طور پر کارپوریٹ فارمنگ کا ہی دوسرا نام ہے۔

اُن کے بقول یہ کسانوں کے حقوق کی نفی ہے۔ اِس سے قبل بھی کارپوریٹ فارمنگ کی کوشش کی گئی تھی جسے عدالتِ عالیہ نے روکا ہے۔

واضح رہے کہ عدالتِ عالیہ لاہور نے حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے پاکستان کی فوج کو 45 ہزار ایکٹر زرعی زمین 20 سال کے لیے دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق نگراں حکومت اور فوج کا یہ کام اُن کےدائرہ اختیار سے باہر ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق آرٹیکل 245 کے مطابق پاکستانی فوج یا اس سے منسلک ادارے کارپوریٹ ایگری فارمنگ منصوبے میں شامل ہونے کا آئینی حق نہیں رکھتے۔ لہذٰا تمام زمین اس کی سابقہ حیثیت کے مطابق حکومت، محکموں اور افراد کو واپس کر دی جائے۔


فاروق طارق نے الزام عائد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جاگیرداروں، زرعی کارپوریشنز اور عرب کمپنیوں کو نوازنا ہے۔

اُن کہنا تھا کہ یہ پروگرام چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے خلاف ایک منصوبہ ہے جس سے پاکستان کی زراعت ترقی نہیں کرے گی لیکن ملک کے سرمایہ دار طبقات اور کارپوریشنز مزید مضبوط اور امیر ہو جائیں گی۔

'زراعت صوبائی معاملہ ہے'

قانونی ماہر احمد رافع عالم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کا ملک میں زراعت کی پیداوار سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے جن کے اپنے زراعت کے محکمے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں فوڈ سیکیورٹی اور پیداوار کی کم شرح کا مسئلہ ہے تو کاشت کاروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ پالیسیوں میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اگر فوڈ سیکیورٹی کے خدشات ہیں تو چھوٹے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اُن کے بقول کسانوں کو کام کرنےدینا چاہیے۔ پاکستان کی فوج کو اِس میں مڈل مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

فاروق طارق بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں سرکاری بنجر زمینوں کے نام پر یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ ملک میں بے شمار زمینیں بنجر پڑی ہوئی ہیں۔ یہ زمینیں سرمایہ کاروں اور جاگیردار طبقے کے بجائے چھوٹے اور بےزمین کسانوں کو دینی چاہیے۔

فاروق طارق کا کہنا ہے کہ اِس سے قبل 60 کی دہائی میں بھی پاکستان کو ایک نام نہاد زرعی انقلابی منصوبہ دیا گیا تھا جس میں ٹریکٹر، کھادوں اور ادویات کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا تھا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام کے تحت غذائی تحفظ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ وہ سب یہاں پاکستان کو ایک بار پھر سرسبز کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔


زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کھاد کی کم نرخوں پر دستیابی، کسان کو کم نرخوں پر بجلی اور پانی کی فراہمی، منڈیوں تک آسان رسائی اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کر کے نہ صرف پاکستان کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ زرعی اجناس کو برآمد کر کے زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں زراعت کے شعبہ سے جُڑے افراد اِس پروگرام کو اہم سمجھتے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں اگر اِس منصوبے میں جدید طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف بنجر زمین کے لیے فائدہ مند ہو گا بلکہ پاکستا ن کے لیے بھی سودمند رہے گا۔

محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد انجم علی کی رائے میں یہ منصوبہ بہت زبردست ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پنجاب: زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے 'ایپ' کا استعمال کتنا فائدے مند؟

اُن کے بقول پاکستان کے شعبہ زراعت میں نئی تبدیلیوں اور نئے طریقۂ کار کی ضرورت ہے۔ اِس کے ساتھ جدید مشینری کے استعمال، اس کا فروغ اور زمین کی مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں ناقابلِِ کاشت اور بنجر زمین کو کاشت کے قابل بنایا جاتا ہے تو اِ تو ملک کی مجموعی شرح پیداوار بہتر ہو گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے زمینوں کو بہتر بنانے اور زیر کاشت لانے کی ضرورت ہے۔