عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان قرض پروگرام کے ختم ہونے میں محض دو روز رہ گئے ہیں اور پروگرام کے تین جائزے باقی ہیں۔ ایسے میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستانی حکام جائزے کی تکمیل کے بجائے اب نئے قلیل المدتی معاہدے پر فنڈ سے گفتگو کررہے ہیں جس کا دورانیہ چھ ماہ سے ایک سال تک ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے ایک عہدے دار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت نے بجٹ منظوری کے دوران آئی ایم ایف کی تجاویز کو شامل کرنے اور پھر شرح سود میں بھی اضافے کے بعد آئی ایم ایف کو کسی حد تک قائل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اب وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو تجویز دی ہے کہ موجودہ پروگرام ختم ہونے کے بعد فنڈ پاکستان کے ساتھ ایک اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کرلے۔ اس ایگریمنٹ کے تحت پاکستانی حکام کو امید ہے کہ مالیاتی فنڈ سے تین ارب 50 کروڑ ڈالر کی رقم آئندہ چھ ماہ میں مل سکتی ہے۔
منگل کو فنڈ کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے سر براہ نیتھن پورٹر نے پاکستان کے ساتھ قرض کی بحالی کے معاہدے کے حوالے سے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں پاکستانی حکام نے اپنی پالیسیوں کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے معاشی اصلاحات کے پروگرام کے ساتھ مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے بعض فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان اقدامات میں پارلیمنٹ کی جانب سے ایسے بجٹ کی منظوری دی گئی جس میں ٹیکس بیس کو وسعت دی گئی جب کہ اس کے ساتھ ہی بیرونی ایکسچینج مارکیٹ یا منی مارکیٹ کی سرگرمیوں میں بہتری اور افراط زر اور ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی سخت کرنا (یعنی شرح سُود میں اضافہ) بھی کیا گیا تاکہ عام افراد کو مہنگائی سے بچایا جاسکے۔
وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے گزشتہ پروگرام میں بطور معاون شریک ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ کافی عرصے کے بعد فنڈ کی جانب سے کوئی مثبت بیان سامنے آیا ہے جس میں فنڈ نے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو سراہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خوش آئندہ پیش رفت تو ضرور ہے لیکن اس میں کافی وقت گزر چکا ہے اور پاکستانی حکام گزشتہ کئی ماہ سے آئی ایم ایف کو قائل نہیں کرپائے جس سے نواں جائزہ مکمل ہونے میں کوئی مدد ملتی۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق اگر نواں جائزہ مکمل نہیں ہو پاتا تو پاکستان کے لیے دوسرا آپشن یہی ہے کہ کم از کم حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری رکھے تاکہ کوئی فی الوقتی یا قلیل المدتی حل کی صورت میں کوئی راہ نکل پائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر نجیب نے مزید کہا کہ پاکستان کی اس وقت غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مد ِنظر رکھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ملک کو اگلے چھ ماہ میں کم سے کم چھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
اُن کے بقول اس میں جاری کھاتوں کا خسارہ شامل نہیں ہے۔ اس صورت حال میں آئی ایم ایف سے رابطے میں رہنا لازمی ہے۔ اس کے بغیر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے پاکستان کو فنڈز کی منتقلی بھی آسان نہیں ہو گی۔
خیال رہے کہ 2019 میں طے پانے والے چھ ارب ڈالر قرض کے معاہدے کے نتیجے میں اب تک آٹھ جائزے مکمل ہوچکے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کو تقریبا 3.4 ارب ڈالر کی رقم مل چکی ہے۔ مزید دو ارب 60 کروڑ ڈالر کی رقم اب تک نہیں مل پائی ہے۔
نواں جائزہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہونا تھا لیکن فریقین کے درمیان پروگرام پر عمل درآمد کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کے باعث یہ گزشتہ نو ماہ میں ممکن نہیں ہو پایا ہے۔