پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جنوری 2023 میں اسمبلی کی تحلیل کے باوجود انتخابات کا انعقاد غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے۔سیاسی اور قانونی حلقے 90 روز کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت کے مستقبل پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔
یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ 90 روز کے اندر انتخابات نہ ہونے کی صورت میں نگران حکومت کی مدت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟
خیال رہے کہ رواں برس 14 جنوری کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی تھی جب کہ 22 جنوری کو نگران وزیرِ اعلٰی پنجاب محسن نقوی نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا مؤقف ہے کہ 22 اپریل تک پنجاب میں انتخابات ہو جانے چاہیے تھے۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 22 اپریل کے بعد پنجاب کی نگران حکومت کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہو گی۔ لہذٰا آئین کی خلاف ورزی پر اعلٰی عدلیہ سے بھی رُجوع کیا جائے گا۔
دوسری جانب حکمراں اتحاد کا مؤقف ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات ہونے چاہئیں، لہذٰا 14 مئی کو صرف پنجاب میں الیکشن کرانا ٹھیک نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کا موٗقف ہے کہ ملک میں مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ بھی زیرِ التوا ہے جب کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بھی خراب ہے۔ لہذٰا 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات ممکن نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں ماہ چار اپریل کو پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا اور اس حوالے سے 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ کے حکم کو مسترد کر دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے بھی جاری نہیں کیے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر پاکستان میں آئینی بحران شدت اختیار کیا گیا ہے اور بظاہر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے دکھائی دیتی ہیں۔
گو کہ پنجاب کی نگران حکومت یہ عندیہ دے چکی ہے کہ اُن کا کام صاف اور شفاف الیکشن کرانا ہے اور وہ اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے تیار ہیں۔لیکن پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے لیے سیاسی ماحول نظر نہیں آ رہا۔
'جب تک نئی حکومت نہیں بن جاتی نگران حکومت رہے گی'
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 224 اے کے تحت جب تک نئی منتخب حکومت نہیں بن جاتی، نگران سیٹ اپ اس وقت تک برقرار رہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد جیسے ہی نئے وزیرِ اعلٰی اور اسپیکر حلف اُٹھاتے ہیں اس کے فوری بعد نگران حکومت خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کا کہنا تھا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 224 اے اور 223 کو ملا کرپڑھا جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی اُمیدواروں کی کامیابی کے نوٹی فکیشن، انتخابی اخراجات کی تفصیل جیسے معاملات کی وجہ سے نئی اسمبلی کے وجود میں آنے اور حکومت بننے میں لگ بھگ ایک ماہ لگ جاتا ہے۔
کنور دلشاد کہتے ہیں کہ گو کہ آئین 90 روز میں الیکشن کرانے کا کہتا ہے لیکن پاکستان میں ماضی میں بھی کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں 90 روز کے بعد بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں۔
اُن کے بقول اگر سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہوتے ہیں تو یہ بھی 90 روز کی مدت ختم ہونے کے بعد ہی ہوں گے۔
ماہرِ قانون میاں داؤد کہتے ہیں کہ نگران حکومت کی مدت کے حوالے سے پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے موجود ہیں جن میں یہ گنجائش موجود ہے کہ نگران سیٹ اپ نئی حکومت بننے تک کام کر سکتا ہے۔
پاکستان میں جمہوری اقدار اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کی جوائنٹ ڈائریکٹر آسیہ ریاض کہتی ہیں کہ اس سے پہلے بھی یہ روایات موجود ہیں جب پاکستان میں انتخابات 90 روز سے آگے جاتے رہے ہیں اور نگران حکومتوں کی میعاد بھی بڑھتی رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2008 میں آٹھ جنوری کو عام انتخابات شیڈول تھے، لیکن دسمبر 2007 میں انتخابی مہم کے دوران بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد انتخاباب 18 فروری تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔اس دوران نگران حکومتیں بھی قائم رہی تھیں۔
میاں داؤد کہتے ہیں کہ نگران حکومتوں کی مدت کے تعین کے بارے میں صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں نگران حکومت کو نئی حکومت کے بننے تک کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2010 میں بیلجیم میں نگران حکومت ایک برس سے زائد عرصے تک کام کرتی رہی جس کی وجہ یہ تھی کوئی بھی جماعت انتخابات میں واضح برتری حاصل نہیں کر سکی تھی۔ لہذٰا کئی روز تک جوڑ توڑ کی سیاست ہوتی رہی اور آخر کار ایک برس بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
SEE ALSO: جب سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد بحال کی مگر حکومت پھر بھی نہ چلیکنور دلشاد کہتے ہیں کہ نومبر 2007 میں قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اور پھر وفاق سمیت چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں بنیں۔ وفاق میں نگران حکومت 31 مارچ 2008 کو اس وقت ختم ہوئی جب قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کی صورت میں نیا قائد ایوان منتخب کیا۔
آسیہ ریاض سمجھتی ہیں کہ ملک میں انتخابات نہ ہونے پر مسائل سب کے سامنے ہیں۔ یہ ایک بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ اِس کے ساتھ یہ ایک بڑا آئینی مسئلہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ مزید گہرا ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ مسائل تب تک حل نہیں ہوں گے جب تک سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہو جاتی۔