ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے ساتھ اُن کے ممکنہ تعلقات کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
  • بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم بعض حلقے کہتے ہیں کہ ٹرمپ پاکستان کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
  • امریکہ کو پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں بھی تعاون درکار ہے: سابق سفارت کار نجم الدین شیخ
  • ڈونلڈ ٹرمپ بھارت یا پاکستان میں کسی کی سائیڈ نہیں لیں گے اور بھارت کو تو وہ بالکل ناراض نہیں کریں گے: تجزیہ کار ڈاکٹر مونس احمر
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کے بارے میں جارحانہ رویے سے بھرپور تھا: تجزیہ کار ڈاکٹر رضوانہ جبین

کراچی -- امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور دنیا پر اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟

جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان کے لیے ٹرمپ کی وائٹ ہاوس میں موجودگی کی کیا اہمیت ہو گی اور کیا پاکستان سے متعلق امریکہ کی موجودہ پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے؟

اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے سابق سفارت کار اور دیگر ماہرین سے بات کی ہے۔

'ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا پالیسی میں بڑی تبدیلی نہیں کرے گی'

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کو جنوبی ایشیا پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ تو ہے۔ اگر امریکہ وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان سے تعلقات استوار کرنے کے ساتھ وہاں چین اور روس کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے پاکستان کا تعاون درکار ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں بھی تعاون درکار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان تو تواتر کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ واقعات تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں۔ لہذٰا وہ انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔

'نئے امریکی صدر کا جھکاؤ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی جانب ہی ہو گا'

جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا ہے کہ چوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں اور انہیں امریکی صدر بننے کا یہ آخری موقع ملا ہے اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ پہلے والی غلطیاں نہ دہرائیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان اور اس خطے کا تعلق ہے۔ صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھارت یا پاکستان میں کسی کی سائیڈ نہیں لیں گے اور بھارت کو تو وہ بالکل ناراض نہیں کریں گے۔

اُن کے بقول وزیرِ اعظم مودی سے ٹرمپ کی پہلے ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ خطے میں صدر ٹرمپ کا جھکاؤ بہرحال بھارت ہی کی جانب ہو گا۔

'امریکہ پاکستان تعلقات میں بہتری کا انحصار خود پاکستان پر بھی ہے'

ڈاکٹر مونس احمر کہتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق کوئی خاص ترجیحات ہوں گی۔

اُن کے بقول امریکہ کے پاکستان سے متعلق خدشات جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور دیگر معاملات پر ہی ہوتے ہیں۔ لہذٰا اگر پاکستان اپنا 'ہاؤس ان آرڈر' رکھتا ہے تو امریکہ کو پاکستان سے کم شکایات ہوں گی۔

اُن کے بقول اصل چیز یہ دیکھنی ہو گی کہ پاکستانی کمیونٹی کس حد تک صدر ٹرمپ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی اکثریت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں کی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے عمران خان سے اچھے تعلقات کے باعث وہ پاکستانی حکام پر اُن کی رہائی کے لیے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے قبل ازوقت قیاس آرائیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ٹرمپ کا پہلا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا تھا؟

ماہرین کے مطابق سن 2017 میں جب ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالا تو اس وقت امریکہ کی توجہ پاکستان میں مبینہ طور پر موجود حقانی نیٹ ورک پر تھی اور 'ڈو مور' کا مطالبہ برقرار تھا۔

امریکہ کا یہ مؤقف تھا کہ حقانی نیٹ ورک کا پاکستان کے قبائلی اضلاع میں نیٹ ورک ہے اور وہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

اس دوران امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد کو پاکستان کی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں سے مشروط کیے رکھا۔

جنوری 2018 میں ٹرمپ نے 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر پاکستان کی امداد یہ کہہ کر بند کر دی تھی کہ پاکستان نے 15 سال کے دوران امریکہ سے 33 ارب ڈالرز حاصل کیے۔ لیکن امریکہ سے جھوٹ بولا اور دھوکے دیے۔

خیال رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو افغانستان میں سخت مزاحمت کا سامنا تھا اور امریکی حکومت پر افغان جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔

افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کی مدد

لیکن 2018 کے اواخر میں ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے حکمتِ عملی پر کام شروع کر دیا۔

زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں اپنا خصوصی سفیر مقرر کر کے امریکہ نے افغان امن عمل شروع کیا گیا جس کو کامیاب بنانے کی پس پردہ کوششوں میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ٹرمپ نے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر افغان امن عمل میں مدد کی اپیل کی۔ یہاں سے صدر ٹرمپ کے دور میں پاک، امریکہ تعلقات کو ایک نئی جہت ملی۔ پاکستان نے اپنی قید میں موجود طالبان کے ڈپٹی لیڈر ملا برادر کو رہا کیا جس سے امریکہ اور طالبان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔

زلمے خلیل زاد نے کئی بار طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کی مدد کا کھل کر اعتراف کیا۔

جولائی 2019 میں وزیرِ اعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات نے تعلقات میں گرمجوشی پیدا کی اور پھر دونوں رہنماؤں کے درمیان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

اس دوران ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے آٹھ کروڑ ڈالر کی اضافی امداد بھی دی۔ تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کی فوجی و سول امداد مسلسل کم ہوتی رہی۔ 2023 میں یہ فوجی امداد کم ہو کر 17 کروڑ ڈالر رہ گئی۔ 2010 تک امریکہ پاکستان کو سالانہ دو ارب 68 کروڑ ڈالر دیتا تھا۔

ٹرمپ کے دور میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کیسے رہیں گے؟

ڈاکتر مونس احمر کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے فوجی تعلقات تو استوار رہیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں مشکل آ سکتی ہے۔

اُن کے بقول ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ زلمے خلیل زاد کو دوبارہ سے اس خطے کے لیے اپنا ایلچی بنا دیں گے۔ زلمے خلیل زاد سفارت کاری کے پرانے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے پاکستان کی موجودہ حکومت کے برخلاف اور عمران خان کے حق میں کافی بیانات بھی دیے ہیں۔

مونس احمر کے بقول زلمے خلیل زاد کی یہ کوشش ہو گی کہ امریکہ کی پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب جھکاؤ کو کسی طرح کم کیا جائے یا کم از کم اسے کمزور کیا جائے۔

نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بائیڈن دور جیسے ہی رہیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ڈونلڈ ٹرمپ سے پاکستانیوں کو کیا امیدیں ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو وہ 'ڈیل میکر' سمجھتے ہیں اور وہ یہ دیکھیں گے کہ پاکستان ان کے کس کام آ سکتا ہے، کون کون سے امریکی مفادات کے لیے پاکستان اہم ہے اور اس کے بدلے امریکہ پاکستان کے لیے کیا کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی توجہ اس بات پر ہو گی کہ چین کے خلاف محاذ آرائی کے لیے جنوبی ایشیا میں بھارت کو طاقت ور بنانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان پر اس صورتِ حال میں کس حد تک دباؤ ڈالا جا سکتا ہے؟

چین پاکستان تعلقات اور امریکہ

ڈاکٹر مونس احمر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات تاریخی طور پر سی پیک کے تناظر میں دیکھے جائیں تو بہترین رہے ہیں۔

لیکن اس میں حالیہ کچھ واقعات سے دراڑ پڑتی نظر آتی ہے۔ اس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ چین اور امریکہ کے تجارتی تنازعات میں ٹرمپ نے کافی سخت پوزیشن اپنائے رکھی تھی۔

اُن کے بقول اس بار ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں چین کے ساتھ ٹکراؤ کی بنیاد پر نہیں ہو گی۔ جب کہ چین کا اتحاد اس وقت روس کے ساتھ ہے اور روس کے بارے میں ٹرمپ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

کیا پاکستان کو اب ایران سے گیس خریدنے کی اجازت مل جائے گی؟

ڈاکٹر مونس احمر کہتے ہیں کہ چاہے ڈیمو کریٹک پارٹی ہو یا ری پبلکن پارٹی، ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بہتری کی گنجائش کم ہے۔ اس لیے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ پاکستان کو امریکی پابندیوں کے تناظر میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کوئی ریلیف مل سکتا ہے۔

نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ کوئی بھی امریکی انتظامیہ ایران کو رعایت دینے کے حق میں نہیں ہوتی۔ لہذٰا ایران، پاکستان گیس پائپ لائن معاملہ التوا کا شکار ہی رہے گا۔

اُن کے بقول پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ امریکہ کو قائل کرنے کی کوشش کرے کہ ایران سے گیس خریدنا اس کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اس کے لیے بھرپور سفارت کاری کرنا ہو گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں خطاب میں کیا کہا؟

ایک جانب امریکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے تو خلاف ہے لیکن وہ ترکمانستان، افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن کے بالکل خلاف نہیں بلکہ اس منصوبے کی حمایت کرتا آیا ہے۔

وفاقی اردو یونی ورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کے بارے میں جارحانہ رویے سے بھرپور تھا۔

اُن کے بقول بائیڈن انتظامیہ نے ان ممالک کے ساتھ نسبتاً لچکدارانہ رویہ اختیار کیا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ٹرمپ انتطامیہ ان ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔

ڈاکٹر رضوانہ کے بقول بائیڈن دور میں پاک، امریکہ تعلقات بالکل نچلے درجے پر چلے گئے تھے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں پاکستان موجود رہے گا اور اسے نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔

لیکن ڈاکٹر رضوانہ جبین کے مطابق اس میں یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان اس صورتِ حال میں امریکہ کو کیا فوائد پہنچا سکتا ہے اور چین کے ساتھ گہرے تعلقات رکھنے والا پاکستان امریکی مفادات کی کس طرح نگہبانی یا کم از کم اس کی ضرورت بن سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور اس بارے میں وہ پاکستان کی بہرحال مدد کا طلب گار ہو گا۔ ایسے میں یہ پاکستان پر منحصر ہو گا کہ وہ دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھ پائے گا یا نہیں۔