کینیڈا نے سال 2022 کے دوران ملک میں آنے والے نئے مستقل باشندوں کی ریکارڈ تعداد کا خیر مقدم کیا ہے۔
کینیڈا کے وفاقی ادارے 'امیگریشن، ریفیوجیز اور سٹیزن شپ کینیڈا' کے مطابق گزشتہ برس ملک میں چار لاکھ 37 ہزار تارکینِ وطن کو خوش آمدید کہا گیاجو ملک کی کل آبادی کا 1.1 فی صد سے زیادہ ہے۔
یوں اتنی بڑی تعداد میں مستقل باشندوں کی آمد سے کینیڈا نے دیگر ممالک سے نئی زندگی گزارنے کے خواہش مند خاندانوں اور افراد کے لیے سب سے زیادہ خوش آئند ممالک کی حیثیت کو مزید مستحکم کیا ہے۔
ایک اور عنصر جو کینیڈا کو بیرون ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے لیے پرکشش منزل بناتا ہے وہ موافق رائے عامہ ہے جس کے مطابق کینیڈین عوام امیگریشن کی اعلیٰ سطح کی حمایت کرتے ہیں۔
نسبتاً سخت آب و ہوا کے باوجود کینیڈا امریکہ کے بعد تارکین وطن کے لیے دوسرے نمبر پرمطلوبہ منزل ہے۔
کینیڈا کے امیگریشن ادارے نے وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کے ذریعے بھیجے گئے بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ سال کی تارکین وطن کی آمد کینیڈا کی تاریخ میں ایک سال میں اب تک سب سے زیادہ لوگوں کی تعداد ہے۔
اس سے قبل آخری بار سن 1913 میں کینیڈا نے اتنی بڑی تعداد میں نئے آنے والوں کا خیرمقدم کیا تھا، جب چار لاکھ 870 مستقل رہائشی ملک میں داخل ہوئے تھے۔
کینیڈا کے مقابلے میں امریکہ نے تقریباً نو گنا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود گزشتہ برس تقریباً 10 لاکھ نئے مستقل باشندوں کو داخل کیا ہے۔
نئے کارکنوں کی ضرورت
نئے تارکینِ وطن کو لینے کی کینیڈا کی دلچسسپی جزوی طور پر ملک میں مزدوروں کی شدید کمی کے باعث ہے کیوں کہ کینیڈا میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ریاستی مالی اعانت سے چلنے والی کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے حال ہی میں مزدوروں کی کمی کو ملک کے لیے 'نیا معمول' قرار دیا ہے۔
کاروبار کرنے والوں اور تخلیق کاروں کے لیے 'لا اسٹیشن ورک اسپیس ' کے نام سے کام کرنے والے ادارے کے بانی مائیلین ڈیسپریس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے لیے یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ کینیڈا اتنے زیادہ تارکین کو خوش آمدید کررہا ہے۔
گیلپ پولنگ آرگنائزیشن میں ورلڈ نیوز کی سینئر کنسلٹنٹ اور مینیجنگ ایڈیٹر جولی رے کے مطابق تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کینیڈا تارکین وطن کی قبولیت کے انڈیکس میں باقی دنیا میں سب سے آگے ہے اور کچھ ہی سال پہلے کیے گئے جائزے میں شامل 95 فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے تارکین وطن کو ایک اچھی چیز کے طور پر دیکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کینیڈا میں بعض حلقے اتنی بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد پر تنقید کرتے ہیں۔ ملک میں امیگریشن کی مخالفت کا بڑی حد تک تعلق جائیداد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مایوسی پر مرکوز ہے۔
کینیڈا میں 1996 اور 2021 کے درمیان گھروں کی قیمتوں میں اوسطاً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں پہلے ایک گھر کی قیمت ایک لاکھ 48 ہزار تھی وہ اب بڑھ کر آٹھ لاکھ 21 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس رجحان کے باوجود بہت کم سیاست دان امیگریشن کے خلاف عوامی سطح پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ایک سابق سیاست دان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ وہ اپنے پرانے حلقوں کی طرف سے اس تشویش کو سنتے ہیں کہ امیگریشن میں اضافے سے رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔
بڑھتی ہوئی امیگریشن کے سب سے مضبوط حامیوں میں ایک غیر منفعتی ادارہ ہے جسے 'سنچری انیشی ایٹو' کہا جاتا ہے، جس کی قیادت وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی میں سینئر عملہ کر رہا ہے۔اس ادارے کو حزب اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی کے مضبوط رکن اور سابق وزیرِ اعظم برائن ملرونی کی بھی حمایت حاصل ہے۔
SEE ALSO: کینیڈا کا عارضی تارکینِ وطن کے اہلِ خانہ کو ورک ویزہ دینے کا فیصلہاپنی پالیسی کی سفارشات میں، سینچری انیشی ایٹو نے دلیل دی ہے کہ ملک کو 2100 تک امیگریشن کے ذریعے اپنی آبادی کو موجودہ 38.25 ملین سے بڑھا کر 100 ملین تک پہنچانا چاہیے۔
ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر تحریر کیا ہوا ہے کہ "ملکی آبادی کی عمر بڑھتی جارہی ہے، بچوں کی تعداد کم ہے اور افرادی قوت سکڑ رہی ہے۔ اگر ہم اسی طرح رہتے ہیں تو عالمی سطح پر ہمارے اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ کینیڈا کی سالانہ اقتصادی شرح نمو بھی کم ہو جائے گی۔"
ادارے کے بقول سن 2100 تک کینیڈا کی آبادی کو 100 ملین تک بڑھانے کا مطلب ہوگا کہ ملک کے پاس مزید ہنر مند کارکنان ہوں گے ، اختراعات کے امکانات زیادہ ہوں گے اور کینیڈا کی معیشت متحرک ہو گی۔