بتایا جاتا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے معاملے پرمشاورت کے سلسلے میں، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے چوہدری نثارعلی خان کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نگراں سیٹ اپ کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں مشاورت کاآغاز ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں، بدھ کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نےچوہدری نثارعلی خان سے نگراں وزیراعظم کے مجوزہ نام طلب کیے۔
وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اپنی معیاد پوری ہونے پر تحلیل ہوجائے گی۔
انہوں نے قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کو آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگراں وزیراعظم کی تقرری کے لیے اتفاق رائے تک پہنچنے کیلئے مشاورت کاعمل شروع کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
وزیر اعظم نے اپوزیشن رہنما سے درخواست کی کہ وہ اپنی رائے کے مطابق نگراں وزیر اعظم کے معیار پر پورا اترنے والی شخصیت کا نام تجویز کریں، تاکہ جلد از جلد نگراں وزیر اعظم کا تقرر کیا جاسکے۔
بیسویں آئینی ترمیم میں منتخب وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثریتی جماعتوں کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ وہ عبوری حکومت کا فیصلہ آپس میں مشاورت کے ذریعے کریں۔
اس سے پہلے نگراں وزاعظم کی نامزدگی کا اختیار فرد واحد صدر مملکت کوجبکہ وزرائے اعلیٰ کو گورنر ز نامزد کرتے تھے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز پشاور میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیرحیدر ہوتی بھی اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے گھر گئے جہاں نگراں وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر غور کیا گیا۔
آئین کے مطابق یہ طریقہ کار باقی صوبائی اسمبلیوں میں بھی اپنایا جائے گا اور متفقہ نگراں سیٹ اپ سامنے لایا جائے گا۔
نگراں سیٹ اپ سے صرف چندروز قبل سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ یہ سوال زیر گردش ہے کہ کیا ملک میں ایک ساتھ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو سکیں گی ؟کیونکہ قومی اسمبلی تو 16 مارچ کو مدت پوری کر رہی ہے لیکن صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مختلف تاریخوں میں پوری ہو گی۔
خیبر پختونخواہ اسمبلی ستائس مارچ ، سندھ اسمبلی چار اپریل جبکہ پنجاب اور بلوچستان اسمبلیاں آٹھ اپریل کواپنی مدت پوری کرے گی لہذا حکومت کیلئے یہ بڑا امتحان ہے کہ تمام وزرائے اعلیٰ کو اس بات پر متفق کرے کہ16 مارچ کو وہ بھی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کروا دیں۔
تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس حوالے سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں وفاق کو پنجاب میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں وفاق کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف متعدد بار یہ بیان دے چکے ہیں کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی کنجی ان کی جیب میں ہے۔
بیسویں ترمیم کے تحت اگر نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن کرے گا لیکن اگر اسمبلیاں ایک ساتھ تحلیل نہیں ہوئیں تو پھر انتخابات کی ایک تاریخ کا اعلان کون اور کیسے کرے گایہ واضح نہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں گورنر راج کا خاتمہ اور حکومت کی بحالی کب ہو گی ؟سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکے تقرر کا نوٹیفکیشن کب جاری ہو گا ؟دونوں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ سے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کب ہو گی؟ اس حوالے سے جوابات آنے ابھی باقی ہیں تاہم حکومتی بیانات پر امید ہیں اور محسوس ہوتاہے کہ نیا جمہوری دور جمہوری انداز میں ہی اپنی منزل تک پہنچ جا ئے گا۔
وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اپنی معیاد پوری ہونے پر تحلیل ہوجائے گی۔
انہوں نے قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کو آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگراں وزیراعظم کی تقرری کے لیے اتفاق رائے تک پہنچنے کیلئے مشاورت کاعمل شروع کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
وزیر اعظم نے اپوزیشن رہنما سے درخواست کی کہ وہ اپنی رائے کے مطابق نگراں وزیر اعظم کے معیار پر پورا اترنے والی شخصیت کا نام تجویز کریں، تاکہ جلد از جلد نگراں وزیر اعظم کا تقرر کیا جاسکے۔
بیسویں آئینی ترمیم میں منتخب وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثریتی جماعتوں کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ وہ عبوری حکومت کا فیصلہ آپس میں مشاورت کے ذریعے کریں۔
اس سے پہلے نگراں وزاعظم کی نامزدگی کا اختیار فرد واحد صدر مملکت کوجبکہ وزرائے اعلیٰ کو گورنر ز نامزد کرتے تھے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز پشاور میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیرحیدر ہوتی بھی اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے گھر گئے جہاں نگراں وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر غور کیا گیا۔
آئین کے مطابق یہ طریقہ کار باقی صوبائی اسمبلیوں میں بھی اپنایا جائے گا اور متفقہ نگراں سیٹ اپ سامنے لایا جائے گا۔
نگراں سیٹ اپ سے صرف چندروز قبل سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ یہ سوال زیر گردش ہے کہ کیا ملک میں ایک ساتھ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو سکیں گی ؟کیونکہ قومی اسمبلی تو 16 مارچ کو مدت پوری کر رہی ہے لیکن صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مختلف تاریخوں میں پوری ہو گی۔
خیبر پختونخواہ اسمبلی ستائس مارچ ، سندھ اسمبلی چار اپریل جبکہ پنجاب اور بلوچستان اسمبلیاں آٹھ اپریل کواپنی مدت پوری کرے گی لہذا حکومت کیلئے یہ بڑا امتحان ہے کہ تمام وزرائے اعلیٰ کو اس بات پر متفق کرے کہ16 مارچ کو وہ بھی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کروا دیں۔
تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس حوالے سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں وفاق کو پنجاب میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں وفاق کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف متعدد بار یہ بیان دے چکے ہیں کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی کنجی ان کی جیب میں ہے۔
بیسویں ترمیم کے تحت اگر نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن کرے گا لیکن اگر اسمبلیاں ایک ساتھ تحلیل نہیں ہوئیں تو پھر انتخابات کی ایک تاریخ کا اعلان کون اور کیسے کرے گایہ واضح نہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں گورنر راج کا خاتمہ اور حکومت کی بحالی کب ہو گی ؟سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکے تقرر کا نوٹیفکیشن کب جاری ہو گا ؟دونوں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ سے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کب ہو گی؟ اس حوالے سے جوابات آنے ابھی باقی ہیں تاہم حکومتی بیانات پر امید ہیں اور محسوس ہوتاہے کہ نیا جمہوری دور جمہوری انداز میں ہی اپنی منزل تک پہنچ جا ئے گا۔