کراچی کی بینکنگ کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کو اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کا اعلان کیا ہے۔
عدالت نے گرفتار ملزمان کو بھی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے جب کہ ضمانت پر موجود ملزمان کی ضمانتیں واپس لینے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کی درخواست منظور کرلی جس میں کیس سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کو منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا ہے کہ عدالت کے پاس نیب کی درخواست رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کیس میں عدالت کے سامنے موجود کیس ایک بڑے معاملے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔
عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت 19 ملزمان کی عبوری ضمانتوں کا حکم بھی واپس لیتے ہوئے ان ملزمان کی ضمانتوں کی رقوم واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس کیس میں گرفتار ملزمان - حسین لوائی، طحہ رضا، انور مجید، عبدالغنی مجید اور اسلم مسعود کو بھی اب نیب اسلام آباد کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019ء کو منی لانڈرنگ ازخود نوٹس کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سامنے آنے پر کیس کی تحقیقات نیب اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس حکم پر چیئرمین نیب نے نیب قانون کی سیکشن 16 اے کے تحت کیس منتقل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ اس سے قبل یہ کیس کراچی کی بینکنگ عدالت میں فراڈ، دھوکہ دہی اور ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کی دفعات کے تحت زیرِ سماعت تھا جس میں آصف زرداری سمیت 19 ملزمان عبوری ضمانت پر تھے۔
عدالت نے چیئرمین نیب کی جانب سے دائر نئی درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا۔
دورانِ سماعت ملزمان کے وکلا کی جانب سے کیس نیب کو منتقل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے کیس منتقل کرنے کے واضح احکامات نہیں دیے تھے۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ نیب کے پاس گرفتاری کا اختیار ہے لیکن تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔ بینکگ کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک، دو روز میں ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ انہیں اس فیصلے پر کوئی تعجب نہیں ہوا کیوں کہ ان کی جماعت اس کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔
تاہم انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جس شہر میں جرم سرزد ہو اس کی تفتیش اور کیس کی سماعت اسی شہر میں ہونی چاہیے۔
انہوں نے پارٹی قیادت پر منی لانڈرنگ اور مبینہ جعلی بینک اکاونٹس کیس کے الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ انصاف کے بجائے دہرا معیار اختیار کیا جاتا ہے۔
ملک میں جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منتقلی کے کیسز گزشتہ سال منظرِ عام پر آئے تھے جس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے 35 ارب پاکستانی روپوں سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی جس کا فائدہ حاصل کرنے والوں میں سابق صدر آصف زرداری، ان کے کئی قریبی ساتھیوں کا نام لیا جاتا رہا ہے۔
اسی مقدمے کی بنیاد پر حکومتِ پاکستان نے چیئرمین ہاکستان پیپلز بلاول بھٹو زرداری، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور دیگر افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے تھے۔ لیکن بلاول بھٹو اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کے نام سپریم کورٹ کی جانب سے حکم کے بعد حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنا پڑے تھے۔