وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ موخر کردیا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ کابینہ نے 20 افراد کے نام فوری نکالنے کی وزارت داخلہ کی سفارش مسترد کردی ہے۔ ذیلی کمیٹی ای سی ایل میں شامل ناموں کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا ہے یا نہیں۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا، جس میں مجموعی طور پر 26 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے منی لانڈرنگ کیس کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ اور اس کے نتیجے میں 172 افراد کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں شامل کرنے سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے۔
اجلاس کے دوران مختلف افراد کے نام ای سی ایل میں رکھنے اور نکالنے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔ تاہم، وفاقی کابینہ نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ موخر کرتے ہوئے اس پر سپریم کورٹ کے تحریری حکم کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کا کیس 2015ء میں شروع ہوا۔ سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا اس میں مرکزی کردار ہے اور ان پر سنگین الزامات ہیں۔ ابھی تک حکومت کو سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موصول نہیں ہوا جس کا انتظار کر رہے ہیں۔ فیصلے کے بعد ہو سکتا ہے نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں دیں۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی درخواست پر کابینہ نے 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کیے تھے اور وزارت داخلہ نے 20 افراد کے نام فوری ای سی ایل سے ہٹانے کی سفارش کی۔ تاہم، کابینہ نے وزارت داخلہ کی درخواست فوری قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں کراچی کا ترقیاتی فنڈ مرادعلی شاہ کے ذریعے اومنی گروپ کو جاتا ہے۔ اومنی گروپ کے ذریعے دبئی اور پھر وہاں سے لندن اور پیرس نکل جاتا ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت نے براہ راست کراچی میں ترقیاتی کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے ملک میں جاری گیس بحران کا بھی نوٹس لیا ہے اور گیس کی جامع پالیسی فوری طور پر تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ملک بھر میں 48 ارب روپے کی گیس چوری ہو رہی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں مقیم نہیں لیکن پھر بھی 44 ہزار یونٹ بجلی استعمال کی گئی۔ نوازشریف دور میں وزیراعظم ہاؤس میں 88 ہزاریونٹ بجلی استعمال ہوتی تھی۔ بجلی کے استعمال پر وزیراعظم نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم ہاؤس کے اسٹاف کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب خود کو گیس کا آئن سٹائن سمجھتے ہیں۔، انھوں نے گیس کی وزارت سنبھالی تو کوئی قرض نہیں تھا، وہ وزارت چھوڑ کر گئے تو گیس پر157 ارب کا قرض تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی شروع سے پالیسی تھی برآمدات کو خصوصی توجہ دیں گے۔ دسمبرمیں 4.5 فیصد برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں 8.4 فیصد کمی آئی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ اوورسیز پاکستانی کون کون سی سرکاری نوکری اور عہدوں کے لیے اہل ہیں۔ اس بارے میں وزیراعظم نے وزارت قانون کا حکم دیا ہے کہ 48 گھنٹوں کے اندر ان سرکاری عہدوں کی لسٹ تیار کی جائے جس پر دوہری شہریت کے حامل پاکستانی تعینات نہیں ہو سکتے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹس لے لیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ غریب طبقے پر مہنگائی کا بوجھ کم پڑے۔ ن لیگ کے دورمیں افراط زر میں چار فیصد فی صد کا اضافہ ہوا۔ مہنگائی کے مطابق بی آئی ایس پی فنڈز میں اضافہ کریں گے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت کے پہلے 5 ماہ میں مہنگائی ہوئی۔