سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف پاکستان کی مختلف عدالتوں میں درجنوں کیسز زیرِ سماعت ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد کسی بھی وزیرِ اعظم کو ماضی میں اتنے کیسز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
عمران خان کے خلاف کیسز کی تعداد 180 کے قریب جا پہنچی ہے۔
ان کیسز میں عمران خان کا اب زیادہ تر وقت اسلام آباد اور لاہور کی عدالتوں میں گزرتا ہے۔
ان کی قانونی ٹیم کے وکلا روزانہ کی بنیاد پر مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں جن میں سول، سیشن عدالتوں کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی، احتساب، سپیشل جج سینٹرل، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی شامل ہیں۔
نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد اُنہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن ان کے خلاف مزید نئے مقدمات درج ہوئے اور انہیں اس روز ریاستی اداروں پر ہونے والے حملوں کا منصوبہ ساز بھی قرار دیا گیا۔
اگرچہ انہیں اس کے بعد اب تک گرفتار نہیں کیا گیا لیکن قانونی ماہرین کے مطابق بہت سے کیسز ایسی سٹیج پر موجود ہیں کہ کسی بھی وقت عمران خان کی گرفتاری ممکن ہے جس کے بعد انہیں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کیس میں گرفتار کر کے طویل عرصہ تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
عمران خان خود بھی اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ان کو ہر حال میں جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق چند کیسز ایسے ہیں جن میں عمران خان کو سزا اور نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد عمران خان آئندہ الیکشن سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
توشہ خان فوج داری کیس
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے اور ان کی مالیت کم ظاہر کر کے اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے بعد یہ قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنے کا کیس چل رہا ہے۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں چلنے والے اس کیس میں عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔
اس کیس میں عمران خان کے خلاف دو اہم گواہان ہیں جن کے بیانات ابھی ریکارڈ ہونا باقی ہیں۔
ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ٹرائل قابل سماعت قرار دیا تھا۔
سینئر صحافی ثاقب بشیر جو عمران خان کے خلاف تمام کیسز کی کارروائی کور کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس ہی ایک ایسا کیس ہے جس میں عمران خان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
اس کیس میں ٹرائل آئندہ انتخابات سے پہلے مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ کیس جرح کی سطح پر ہے اور بہت جلد اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
اس کیس میں اگر عمران خان کو سزا ہو تو زیادہ سے زیادہ تین برس قید اور اگر ایک دن کی بھی سزا ہو تو عمران خان کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔
اگست 2022 میں الیکشن کمیشن میں پی ڈی ایم کے ایم این ایز کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو برس تک ظاہر نہیں کیا۔
یہ تحائف صرف سال 2021-2020 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے ان تمام کیسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اکتوبر 2022 میں ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عمران خان نے اثاثوں کی غلط تفصیلات جمع کرائیں اور کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوج داری کارروائی کا حکم دیا تھا۔
SEE ALSO: پرویز خٹک کی نئی جماعت، خیبرپختونخوا میں عمران خان کو چیلنج کر سکے گی؟القادر ٹرسٹ کیس
یہ وہ کیس ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے برطانیہ میں قبضے میں لیے جانے والے 190 ملین پاؤنڈ پاکستان لا کر انہیں سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا معاملہ ہے۔
اس کیس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے القادر ٹرسٹ کے لیے سینکڑوں ایکڑ زمین لی جو ان کے اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام ہے۔
ثاقب بشیر کے مطابق یہ کیس ابھی انوسٹی گیشن کی سطح پر ہے۔ اس میں ابھی نیب کی طرف سے ریفرنس داخل ہونا ہے جس کے بعد ضمنی ریفرنس بھی آسکتا ہے۔
البتہ اس کیس میں عمران خان کو عدالت کی طرف سے ضمانت مسترد کیے جانے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اس کیس میں عمران خان کو کئی بار نیب کی طرف سے بلایا گیا اور آئندہ پیشی 25 جولائی کو ہونا ہے۔
یاد رہے کہ یہی وہ کیس ہے جس میں پیش نہ ہونے کا الزام عائد کر کے عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس کیس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے رشوت کے عوض وہ رقم جو قومی خزانے میں آنا تھی اسے ملک ریاض کے سپریم کورٹ کے لائبلٹی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی اجازت دی تھی۔
اس کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ شہزاد اکبر بھی نامزد ہیں۔ لیکن وہ اس کیس میں اب تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا بیان نیب کو بھجوا دیا ہے۔ اس کیس میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے بھی اپنا بیان جمع کروا دیا ہے۔
ٹیریان وائٹ کیس
قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس کی وجہ سے عمران خان کو فوری طور پر کوئی خطرہ تو نہیں، لیکن نااہلی کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کیس میں عدالت نے 10 مئی کو تین رکنی بینچ میں سے دو ججز کا فیصلہ پبلک کیا اور کچھ دیر کے بعد اسے عدالت کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے دو ججز نے اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا تاہم اس بارے میں عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
عدالت کی طرف سے حکم نامہ آیا کہ اس کیس کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا، لیکن 10 مئی کے بعد سے اب تک کوئی بینچ تشکیل نہیں دیا جا سکا۔
ٹیریان کیس عمران خان کی مبینہ بیٹی کے حوالے سے ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ اس بیٹی کے والد ہیں لیکن انہوں نے اپنی دستاویزات میں کہیں بھی ٹیریان وائٹ کا ذکر نہیں کیا۔
عمران خان اس بارے میں خود پر عائد تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
سائفر کیس
امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اہم معاملہ سائفر کا ہے جو اس وقت وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) میں زیرِ تفتیش ہے۔
اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک مبینہ خط لہرایا جس میں ان کے مطابق وہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا۔
اس سائفر میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے عمران خان حکومت ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش کی گئی۔
بعدازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔
اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز چھ ماہ قبل حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔ لیکن اس بارے میں عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر لیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے عدالت نے یہ حکم امتناع ختم کر دیا ہے۔
اس کیس میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے رواں ہفتے اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور سرکاری دستاویز کو گم کرنے اور سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔
اس کیس میں ایف آئی اے نے عمران خان کو 25 جولائی کو طلب کر رکھا ہے اور اگر عمران خان اس کیس میں پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف یک طرفہ کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کے سیکشن 5 کے مطابق انہوں نے سرکاری خفیہ دستاویز کو اجازت کے بغیر افشا کیا اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام تر الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں صرف سیاسی الزامات عائد کیے گئے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس میں عمران خان کے خلاف سخت ایکشن لیا جاسکتا ہے کیوں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ایک بہت بڑا معاملہ ہے۔
ماہرین کے مطابق دورانِ تفتیش عمران خان اپنا مؤقف درست انداز میں پیش نہ کر سکے تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اس کیس میں اگرچہ ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی لیکن مقدمے کے اندراج کے بعد انہیں گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔
نو مئی کے کیسز
عمران خان کے خلاف اس وقت نو مئی کے حوالے سے مختلف کیسز کی سماعت جاری ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی کی اور ریاستی اداروں پر حملوں کو منظم کیا۔
سینئر صحافی ثاقب بشیر کے مطابق نو مئی کے معاملات میں اب تک پراسیکیوشن کی طرف سے کوئی بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس کے مطابق یہ ثابت ہو کہ یہ حملے عمران خان کے ایما پر کیے گئے ہیں۔
اُن کے بقول ایسے کیسز میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر پارٹی عہدیداروں کو ضمانتیں مل چکی ہیں۔
ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ عدالت میں اس امر کو ثابت کرنا خاصا مشکل ہے کہ یہ واقعات عمران خان کے ایما پر ہوئے۔
اس بارے میں سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں لیکن اب تک یہ شواہد عدالتوں میں پیش نہیں کیے گئے۔