امریکہ کے ایک سرکاری ادارے نے آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والے ایک بھارتی نژاد شہری سے نسل پرستانہ رویہ اختیار کرنے پر مقدمہ درج کرا دیا ہے۔
یہ مقدمہ 'کیلی فورنیا ڈیپارٹمنٹ آف فیئر ایمپلائمنٹ اینڈ فیئر ہاؤسنگ' نے دنیا میں نیٹ ورکنگ کی بڑی امریکی آئی ٹی کمپنی 'سسکو' کے خلاف دائر کیا ہے۔
مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھارتی نژاد ملازم کے 'دلت' ہونے کی وجہ سے دفتر میں انہیں ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔
بعض ماہرین کو امید ہے کہ اس مقدمے سے امریکہ میں جنوبی ایشیائی ملازمین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے معاملے کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جون کے آخر میں اندراج مقدمہ کے لیے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ انجینئر جان ڈو کے دو افسران کا تعلق خود کو برتر تصور کرنے والی برہمن ذات سے ہے۔
واضح رہے کہ جان ڈو فرضی نام ہے جو امریکہ میں قانونی چارہ جوئی کے دوران ایک عام پریکٹس شمار ہوتی ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جان ڈو کے افسران نے ان کی ‘ذات’ سے متعلق دانستہ طور پر دیگر بھارتی نژاد ملازمین کو بتایا جس کے بعد ساتھیوں کا رویہ بدلتا چلا گیا۔ جان ڈو نے 2016 کے بعد کئی بار ان افسران کے رویے سے متعلق شکایت کی جس پر اسے مزید بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔
جان ڈو نے الزام عائد کیا ہے کہ دونوں افسران نے سزا کے طور پر اس کے پروجیکٹس واپس لے کر دوسرے ملازمین کو دے دیے جب کہ انہوں نے ڈو کی پروموشن بھی روک دی۔
جان ڈو کے مطابق انہیں دیگر مالی مراعات سے بھی محروم کردیا گیا جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سسکو نے ڈو کی شکایت پر اندرونی تحقیقات کیں لیکن دونوں افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی جس سے ڈو کے لیے اپنے دفتری فرائض ادا کرنا مشکل ہو گئے۔
درخواست کے مطابق امریکہ آنے والے 90 فی صد سے زیادہ بھارتی تارکِ وطن بھارت میں اعلیٰ ترین سمجھی جانے والی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جان ڈو سسکو میں واحد بھارتی نژاد 'دلت' ہیں۔
دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات اور آلات فراہم کرنے والی بڑی امریکی کمپنی 'سسکو' کے صرف کیلی فورنیا میں 18 ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ ان میں بھارتی شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
سسکو کمپنی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے عدالت میں اپنے دفاع کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی ایشیائی ملکوں میں ذات پات کی تفریق کے خلاف امریکہ میں کام کرنے والی تنظیم 'ایکوالٹی لیب' کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 67 فی صد دلتوں کو ذات کی وجہ سے ان کے کام کی جگہوں پر غیر منصفانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق تنظیم کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق ہر چار میں سے ایک دلت کو لفظی یا جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر تین میں سے ایک دلت طالب علم تعصب کا شکار ہوا اور ہر تین میں سے دو کو دفتر میں ہراساں کیا گیا۔
امریکہ میں اپنے نام سے قائم تنظیم 'تھیموزی سندراجن' کی سربراہ تھیموزی سندراجن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چوں کہ یہ شہری حقوق سے متعلق پہلا واقعہ ہے جس میں سرکاری ادارہ کسی امریکی کمپنی میں ذات پات پر ہراساں کرنے کے مقدمے کا مدعی بنا ہے۔ لہذٰا اس اعتبار سے یہ تاریخی موقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقدمے کی کارروائی سے ان تمام امریکی کمپنیوں میں جہاں بھارتی ملازمین کام کرتے ہیں یا وہ امریکی کمپنیاں جو بھارت میں کام کر رہی ہیں ان کی دفتری پالیسیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس میں فیس بک، گوگل، ٹوئٹر جیسی بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں جن میں بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں جنوبی ایشیائی خصوصاً اونچی ذات کے بھارتی باشندوں کی جانب سے نچلی ذات سمجھے جانے والے دلتوں کے ساتھ تعصب برتنے کے خلاف مہم کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ لیکن جب تک اسکولوں اور دفاتر میں لوگوں کو اس حوالے سے تربیت اور اس سلسلے میں قانون سازی نہیں کی جاتی دلتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اس ضمن میں امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ سے سبق لیا جاسکتا ہے۔
دلتوں کے لیے نسلی تعصب کس طرح خوف کا باعث ہے؟
امریکہ میں بسنے والے بیشتر متاثرہ دلت برادری کے افراد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔
دلت برادری سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ بھارتی نژاد شہری 20 سال پہلے نیو جرسی منتقل ہوئے۔ ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والے ان کے بھارتی نژاد ساتھی آج تک نہیں جانتے کہ وہ دلت ہیں۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "جب ساتھی دلت برادری کے افراد پر تذلیل آمیز طنز و مزاح یا جملے کستے ہیں تو مجھے ان کے ساتھ ہنسنا پڑتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کو میری اصلیت معلوم نہ ہوجائے۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو وہ لوگ مجھ سے کنارہ کش ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی نوکری سے متعلق مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح ایک اور بھارتی نژاد اوبیڈ مین واٹکر 2017 میں جب شکاگو شفٹ ہوئے تو بہت تنہا تھے۔ ایک دن وہ ایک گیس اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کا مالک بھارتی نژاد ہے۔ دونوں میں کچھ دنوں تک تو خوب گپیں لگتی رہیں لیکن پھر اچانک ایک دن اسٹیشن مالک نے ان سے ان کی ذات پوچھ ہی لی۔
پہلے تو اوبیڈ نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن بہت اصرار پر انہیں سب کچھ سچ سچ بتانا پڑا۔
اُن کے بقول "میرے بتانے پر اسٹیشن مالک بھڑک اٹھے اور کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس اسٹیشن پر آنے کی۔ اس انکشاف کے بعد سے نئے دوست نے پیٹرول اسٹیشن پر ان کا داخلہ ہی بند کر دیا۔"
واٹکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے باپ دادا دلت تھے اور انہوں نے ذات بات کے چکر سے نکلنے کے لیے عیسائی مذہب اپنا لیا تھا اس لیے میری کوئی ذات نہیں۔
'بلیک لائیو میٹرز' کا حصہ بننے والے نیو جرسی کے ایک بھارتی شہری کا کہنا ہے کہ ہمارے بیشتر بھارتی نژاد امریکی دوست ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اُن کے بقول وہ اپنی برادری میں موجود ذات پات کی تفریق کے خلاف آواز اٹھانا تو دور کی بات اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانے سے کتراتے ہیں۔
واشنگٹن میں واقع ایک تھنک ٹینک 'دی مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ' کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ 22 لاکھ بھارتی نژاد شہری رہتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں متحرک ٹیکنالوجی کی صنعت کی وجہ سے بھارتی نژاد شہریوں کی بڑی تعداد یہاں مقیم ہے۔
چند سال پہلے کیلی فورنیا میں نسل یا ذات کی بنیاد پر تعصب کے معاملے پر ایک بڑا تنازع سامنے آیا تھا جب یہاں مقیم قوم پرست ہندوؤں نے قومی تعلیمی بورڈ سے مطالبہ کیا کہ پانچویں اور چھٹی جماعت کی کتابوں سے لفظ 'دلت' حذف کر دیا جائے۔
ان کا مطالبہ تھا کہ ذات پات میں تفریق کے معاملے کو صرف ہندو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ اس مطالبے کے خلاف اور حق میں کیلی فورنیا کی ہندو برادری کئی روز تک سراپا احتجاج رہی۔ لیکن حکومت نے درسی کتب میں چند تبدیلیاں تو کیں لیکن قوم پرست ہندوؤں کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔