امریکی مذہبی تنظیموں کے لیے اربوں ڈالر کے قرضے

فائل

امریکہ کے رومن کیتھولک چرچ نے وفاقی قواعد سے خصوصی چھوٹ کے تحت کم از کم ایک ارب 40 کروڑ ڈالر حاصل کیے ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

ان میں دسیوں لاکھ ڈالر ان عبادت گاہوں کو دیے جارہے ہیں جنھوں نے جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے بعد ہرجانے میں بھاری رقوم ادا کیں یا دیوالیہ ہونے کا اعلان کرکے مالی تحفظ حاصل کیا تھا۔ یہ رقم ٹیکس گزاروں کے پیسوں سے قائم کرونا وائرس امداد سے دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ وہ اس ہفتے جاری کیے گئے وفاقی حکومت کے ڈیٹا سے اتنی رقم کا سراغ لگاسکا ہے، لیکن امکان ہے کہ یہ رقم ساڑھے 3 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

مذہبی تنظیمیں عام طور پر امریکہ کی اسمال بزنس ایڈمنسٹریشن سے رقوم حاصل نہیں کرسکتیں۔ لیکن معیشت کے زوال اور بیروزگاری کی شرح میں اضافے کے بعد کانگریس نے مذہبی تنظیموں اور فلاحی اداروں کو تنخواہوں کے تحفظ کے پروگرام میں شامل کرلیا گیا تھا۔

اے پی کے مطابق، کیتھولک چرچ کی تنظیموں، عبادت گاہوں اور مدرسوں کے لیے اب تک ساڑھے تین ہزار قرضے منظور کیے جاچکے ہیں۔

مثال کے طور دا آرچ ڈایوسیز آف نیویارک نے اپنے اعلیٰ عہدے داروں کے لیے 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے 15 قرضے حاصل کیے ہیں۔ اس کے ففتھ ایونیو پر واقع مشہور سینٹ پیٹرکس کیتھڈرل کے لیے کم از کم 10 لاکھ ڈالر منظور کیے گئے ہیں۔

کیلی فورنیا کی اورنج کاؤنٹی میں حال میں شیشے سے بنے گرجا گھر کا افتتاح ہوا ہے جس پر 7 کروڑ ڈالر سے زیادہ لاگت آئی۔ وہاں مذہبی رہنماؤں نے کم از کم 30 لاکھ ڈالر کے 4 قرضے حاصل کیے ہیں۔

اسی طرح مغربی ورجینیا کے ویلنگ چارلسٹن کے لیے 20 لاکھ ڈالر کا قرضہ منظور کیا گیا ہے، جہاں گزشتہ سال تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس وقت کے بشپ مائیکل برینسفیلڈ نے مالی ہیرپھیر کی اور نوجوان پادریوں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

یہ وہ قرضے ہیں جو تنخواہوں، کرایوں اور بلوں کی ادائیگی میں خرچ کیے جانے کی صورت میں معاف کردیے جائیں گے۔ کم شرح سود کی وجہ سے سب فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ لیکن عبادت گاہوں کے لیے اتنے زیادہ قرضے منظور ہونے کی دوسری وجوہ بھی ہیں۔

اے پی کے مطابق، مذہبی تنظیموں نے ٹرمپ انتظامیہ کو ترغیب دی کہ انھیں ان قواعد سے چھوٹ دی جائے جن کے تحت 500 کارکنوں والے ادارے قرضہ نہیں لے سکتے۔ اس ترجیحی سلوک کے بغیر بہت سے کیتھولک ادارے قرضے کے اہل نہیں ہوسکتے تھے، کیونکہ ان کے دفاتر، عبادت گاہوں اور ذیلی تنظیموں کے کارکنوں کی مجموعی تعداد 500 سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

ورجینیا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر میکا شوارٹزمین کا کہنا ہے کہ حکومت نے خصوصی قرضے جاری کیے ہیں جو ایک طرح کا فیورٹ ازم ہے۔ اور یہ فیورٹ ازم اربوں ڈالر کا ہے۔

چرچ کی حاصل کردہ ایک ارب 40 کروڑ سے ساڑھے 3 ارب ڈالر بھی اصل رقم سے کہیں کم ہیں۔ کیتھولک کے مالیاتی افسروں کی تنظیم دا ڈیوسیزن فسکل منیجمنٹ کانفرنس نے اپنے ارکان کے سروے کے بعد بتایا ہے کہ 9 ہزار کیتھولک تنظیموں نے قرضے حاصل کیے ہیں۔ اے پی کا کہنا ہے کہ یہ اس کے اعدادوشمار سے تین گنا زیادہ ہے۔

اے پی کا کہنا ہے کہ وہ قرضہ لینے والوں کے مزید اعدادوشمار اس لیے جمع نہیں کرسکی حکومت کے ڈیٹا میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر کم رقم لینے والوں کے نام نہیں ہیں۔ بہت سے چھوٹی مذہبی تنظیمیں اور گرجا گھر اسی درجے میں ٓتے ہیں۔ یہ ڈیٹا بھی کانگریس کے دباؤ اور میڈیا اداروں کی جانب سے مقدمہ دائر کیے جانے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

مکمل حسابات سامنے نہ آنے باوجود اے پی کا خیال ہے کہ کیتھولک چرچ تنخواہوں کے تحفظ کے پروگرام کے بڑے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے۔ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والی بہت سی کمپنیوں کو مشاہیر، ارب پتی افراد، ریاستی گورنروں اور ارکان کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔

اس پروگرام سے تمام مذہبی تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی تھیں اور بہت سے گروپس نے فائدہ اٹھایا بھی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذہبی مشیر پاولا وائٹ کین بھی قرضہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔